کہا جاتا ہے انسان کا سب سے بڑا استاد وقت ہے جو سب کچھ سکھا دیتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن میرا یہ بھی ماننا ہے کہ مختلف مراحل میں مختلف اساتذہ ملتے ہیں۔ سب سے پہلے مجھے ماں کی گود اور والد کی نگرانی ملی، جس نے ابتدائی شخصیت کی بہت بہتری سے تشکیل کی۔ اسکول کا دور شروع ہوا تو انتہائی شفیق اساتذہ ملے، ان میں نمایاں ہمارے ریڈیو پاکستان کراچی اسکول کے ہیڈ ماسٹر رحمت اللہ صاحب نے اسکول کی نشست برخاست اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے تہذیب سے روشناس کرایا۔
چوتھی جماعت میں پہنچے تو سندھی کے استاد معروف سندھی اداکار نور محمد لاشاری سے سندھی سیکھنے کا موقع ملا۔ چھٹی کلاس میں آئے تو بچوں کے بہترین شاعر اور پرائیڈ آف پرفارمنس جناب ضیاءالحسن ضیا ہمارے اردو کے استاد ٹھہرے۔ ضیاء صاحب نے ناصرف اردو کی کتاب ہڑھائی بلکہ اپنے اشعار سنا کر ہمیں قوافی اور مجموعی طور پر ردھم سے آشنا کیا۔
انگریزی کی کلاس میں داخل ہوئے تو ضیغم حمیدی جیسے استاد کو پایا۔ بلند آہنگ آواز میں انگریزی پڑھانے کے دوران بچوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اپنی شاعری بھی سناتے۔ ان دونوں شفیق اساتذہ کے زیر سایہ وہ پانچ برس کس طرح بیت گئے پتا ہی نہ چل پایا۔ انٹرمیڈیٹ میں علامہ اقبال کالج میں داخلہ لیا تو پروفیسر حسنین کاظمی صاحب کی دلآویز شخصیت کی سرپرستی ملی۔ پروفیسر نوشابہ صدیقی، جو اخبارِ جہاں کی پہلی ایڈیٹر تھیں، بھی ہمیں سدھارنے والوں میں شامل تھیں۔ اسی کالج میں اُس وقت کے معروف سندھی اداکار صلاح الدین تنیو صاحب فزکس کے استاد تھے تاہم ان کی استادی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی اور ہم فزکس سے گھبراکر کامرس میں پہنچ گئے۔ یہاں دیگر اساتذہ سے ہم نے اعداد کا اور تجارت کا کھیل سیکھا (جو آج تک ہمارے مزاج کا حصہ نہیں بن سکا ہے) تاہم ایک ایسی ہستی بھی یہاں موجود تھی جس کا مدھم لہجہ تمام طلباء کو بھاتا تھا۔ وہ شخصیت تھی معروف عالم دین اور سیرت کی کتاب پر تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل حاصل کرنے والے مفتی منیب الرحمان کی۔
جامعہ کراچی پہنچے تو ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ اپنی چھب دکھلا رہا تھا لیکن ڈاکٹر طاہر مسعود اور میڈم رفیعہ تاج صاحبہ نے خصوصی توجہ دی اور صحافت کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا۔ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عملی میدان میں جس شخصیت نے سر پر ہاتھ رکھا وہ تھے اردو دنیا کے بے تاج بادشاہ جناب شکیل عادل زادہ۔ ہم جیسوں کی اردو سیدھی کرکے جس طرح انہوں نے ہمیں زبان کے معاملے میں ٹیڑھ مزاج بنایا وہ ایک الگ ہی کہانی ہے۔ انہوں نے ناصرف ہمارا شین قاف بلکہ زیر زبر تک درست کرایا اور ہم کچھ بہتر تلفظ سے آشنا ہوسکے۔ شکیل صاحب سے ہم نے اردو تو سیکھی لیکن ادب کی (اردو ادب) کی حد تک۔ یہیں پر ایک استادِ سخت گیر لیکن انتہائی نرم دل شخصیت کے مالک رفیق احمد نقش تھے، جو آج فردوس میں فرشتوں کی اردو درست کرانے میں مصروف ہوں گے (اللہ ان کی مغفرت فرمائے) ان سے بہت ڈانٹ کھاکر اردو ٹائپنگ کے اصول اور عربی و فارسی قواعد سیکھے۔
جب معاملہ سب رنگ ڈائجسٹ کے ادبی رنگ سے نکل کر اے آر وائی کے نیوز روم پہنچا تو وہاں ہاتھ تھاما پاکستان کے بہت بڑے صحافی جناب محمود شام نے۔ خبر بنانا انہوں نے سکھایا اور ترجمے کی جانب راغب کرنے کے لیے مہنگی انگریزی کتابیں مجھے لاکر دیا کرتے اور میں پوری جانفشانی سے ترجمہ کرتا۔ ہندی سے اردو ترجمہ شکیل عادل زادہ صاحب کی نگرانی میں کرچکا تھا، سو زیادہ مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ مشکل کا سامنا تو اُس وقت ہوا جب میں "اب تک” نیوز پہنچا اور کچھ نہ جانتے ہوئے بھی رن ڈاؤن پروڈیوسر اور شفٹ ہیڈ بنادیا گیا۔ یہاں سے استادی شروع ہوتی ہے سینئر صحافی، تجزیہ کار اور بہترین ناول نگار جناب ناصر بیگ چغتائی کی۔ شکیل عادل زادہ کی اردو، محمود شام کی سکھائی ہوئی خبر کی تراش۔۔۔ یہ سب تو ہوچکا تھا لیکن برا ہو نیوز مینجمنٹ جیسے کام کا، جو مجھے بالکل نہیں آتا تھا۔ ناصر بیگ چغتائی صاحب المعروف این بی سی نے ہمت بندھائی اور اس طرح کام سکھایا کہ چند لوگوں میں پہچان بن گئی۔
یہ وہ اساتذہ ہیں جن سے میں نے براہ راست بطورِ شاگرد سیکھا۔ آج اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر میں تمام اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں اور نوجوان نسل کو خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اساتذہ کی عزت کریں۔ اساتذہ جو کچھ آپ کو دیتے ہیں، وہ زندگی میں کوئی اور شخص آپ کو نہیں دے سکتا۔ یقین نہ آئے تو کبھی تنہائی میں حساب کیجیے، اپنے اساتذہ کو اپنی زندگی سے مائنس کرکے دیکھیے، اگر دامن خالی ملے تو رفتگان کے لیے دعا کیجیے اور آئندگان کی عزت کا عہد کیجیے گا۔