بزرگ معاشرے کے لیے متاع جاں کی سی حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ یوں سمجھئے کہ جس معاشرے میں بزرگ نہ ہوں، وہ ناقص و بے روح ہے۔ قوم و معاشرے کی رونقیں انہی بزرگوں کی مرہون منت سے ہیں۔
جس ادارے یا معاشرے میں رونقیں وجود دینے والے افراد نہ ہوں تو وہ بالکل پھیکا اور بے رونق نظر آتا ہے۔ ادارے کے تمام ملازمین و افراد کے چہروں پر سستی و کاہلی کی پرچھائیاں آئینے کی طرح صاف وشفاف نظر آتی ہیں کہ میاں تھکن سے چکنا چور ہوچکے ہیں۔ اگر اسی طرح ادارے میں کوئی ہنس مکھ، خوش مزاج طبیعت کا فرد ہو، جو گفتگو کے ذریعے ساتھ والوں کو مسکرا دینے پر مجبور کردے تو تمام افراد کے چہروں پر مسکراہٹیں اور خوشی سے ان کی باچھیں کھلی کھلی نظر آتی ہیں۔
بالکل اسی طرح اگر معاشرے میں بزرگ موجود نہ ہوں تو باقی ماندہ افراد(بچوں اور نوجوانوں) کے چہروں پر سستی اور کاہلی کے سمندر میں ڈوبے نشانات دکھائی دیں گے۔ البتہ جس معاشرے میں بزرگ موجود ہوں تو اس میں بسنے والے ہر فرد کے چہرے پر پرچھائیاں نہیں بلکہ رونقیں ہی رونقیں نظر آئیں گی۔
گھروں، محلوں اور بستیوں کی رونقیں بزرگ ہی ہوتے ہیں۔ بزرگوں کی موجودگی معاشرے کو چار چاند لگادیتی ہیں۔ جگمگاتی اور قہقہوں سے سجی بیٹھکوں میں بزرگوں کی موجودگی زندگی میں نئی تازگیاں بکھیرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجلسوں میں رونق وبہار انہی بزرگوں کے دم سے ہے۔
بزرگ اپنے بچپنے سے جوانی، جوانی سے بڑھاپے تک زندگی میں مختلف طور و اطوار، نشیب وفراز اور سخت آندھیوں سے لڑبھڑ کر اس عمر تک پہنچتے ہیں۔ کبھی کبھار اپنے تجربے کی بنیاد پر موقع محل سے اپنے منہ سے ایسی اچھی بات نکال دیتے ہیں کہ سننے والے اگر اسے اپنی زندگی میں اختیار کرلیں تو وہ ان کے لیے کارگر ثابت ہوجائے۔ کبھی کبھی تو مختلف جنجالوں یعنی وبالوں میں پھنسے ہوئے کو مشکل سے ایسے نکالتے ہیں کہ حد سے زیادہ چالاک بننے والا بھی منہ میں انگلیاں دابے بزرگ فرد کی ذہانت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔
افسوس! آج کا نوجوان ان بزرگوں کی باتوں کو سنی ان سنی کردیتا اور زندگی کے مسائل سلجھانے کے معاملے میں خود ہی کو عقل کُل سمجھتا ہے۔
یقین مانیے محلوں اور قصبوں کے گلستانوں کی بہار و رونق انہی بزرگوں سے قائم ودائم ہے۔ بزرگوں کی عدم موجودگی میں بیٹھک ایسی لگتی ہے جیسے ان پر شب غم چھائی ہو۔
ماضی قریب کا نوجوان اپنے بزرگوں سے بیٹھ کر اپنے بڑوں کی باتوں، کہاوتوں سے استفادہ کرتا تھا، اب یہ سلسلہ یکسر ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔ ڈر صرف اس بات کا ہے کہ اگر بیٹھکوں میں بزرگ نہ ہوئے تو چمکتے دمکتے، ہنستے کھلتے، مسکراتے گلستاں ویراں ہوجائیں گے۔
آئیں نئے عزم و ولولہ کے ساتھ معاشرے میں بزرگوں کو مل کر قدر و منزلت دیں اور بڑوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی صحبت اختیار کریں، تاکہ ان اجڑے ویرانوں اور گلستانوں میں نئے سرے سے فصل بہاراں ہو۔
بقول شاعر:
وہ جن کے دم سے تیری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تیری بزم خیال سے بھی گئے