یہ اس ممتاز بلے باز کا ذکر ہے، جس کا ایک عالم گرویدہ تھا، جس کے انداز بلے بازی نے نئی جہت متعارف کروائی اور جو اپنی مثال آپ قرار پایا۔
رنگین عینک۔ گلے میں رومال۔ سیلقے سے جمے بال۔ دھاری دار قمیص۔ اور کشدہ مسکراہٹ!
کچھ ایسے تھے حنیف محمد۔ ایک سادہ اور شائستہ آدمی۔
انٹرویو کے لیے حاضر ہوئے، ہم اِس فکر میں غلطاں تھے کہ اِس مہان بلے باز کے روبرو سوالات کی گیند بازی کہیں پھیکی نہ پڑ جائے۔
البتہ جب ان سے ملے، کشادگی کے پرسکون احساس نے حصار میں لے لیا۔ بڑی سہولت ہوگئی۔
آغاز سے قبل اُنھوں نے پوچھا: ’’کتنا وقت صرف ہوگا؟‘‘
جواب میں کہا:’’آپ سے متعلق خاصا مواد موجود ہے، کچھ ہی سوال کرنے ہوں گے، شاید تیس پینتیس منٹ صرف ہوں۔‘‘
کہہ تو دیا، مگر توقع کے عین مطابق، ایسا نہیں ہوا۔ مکالمہ شروع ہوتے ہی اُن کے ذہن میں یادوں کا دریچہ کھل گیا۔ آبائی وطن جوناگڑھ کا تذکرہ آیا۔ والد، اسماعیل شیخ انڈین آرمی کا حصہ۔ والدہ، امیر بی بیڈمنٹن کی ممتاز کھلاڑی۔ کرکٹ خون میں تھی۔ شوق اِس نہج پر کہ لکھنے پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان۔ گراؤنڈ میں خود وکٹ تیار کرتے۔ خوشی خوشی رولر چلاتے۔ والدہ قدم قدم پر حوصلہ افزائی کیا کرتیں۔ اِسی کا نتیجہ تھا کہ محمد برادرز نے کرکٹ کی دنیا پر حکم رانی کی۔
بچپن کا ذکر کرتے ہوئے چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ پھر بٹوارے کا تذکرہ آیا۔ رات کے اندھیرے میں اُن کا خاندان ایک لانچ میں سوار ہو کر پاکستان پہنچا، جہاں معاشی مسائل منتظر تھے۔ کچھ روز بھیم پورہ کے ایک مندر میں ٹھہرے۔ اسی زمانے میں سٹی اسکول کی طرف سے کھیلتے ہوئے وہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی کرکٹ ٹیم کے کوچ، ماسٹر عزیز کی نظروں میں آئے۔ پھر ایک میچ کے دوران یاور سعید سے ملاقات ہوئی، جو پاکستانی ٹیم کے کپتان، میاں محمد سعید کے صاحب زادے تھے۔ اس ملاقات کو حنیف محمد اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ تصور کیا کرتے تھے۔
اپنے بھائیوں کے ساتھ وہ مغل کرکٹ کلب کی جانب سے کھیلتے رہے۔ بیٹنگ کے ساتھ وکٹ کیپر کی حیثیت سے دستانے بھی سنبھالتے۔ اسی زمانے میں پاکستان کے بڑے شہروں کی ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ حنیف محمد کو یقین نہیں تھا کہ وہ اتنے کڑے مقابلے میں سرخرو ہوں گے، مگر قسمت ساتھ تھی۔ پینٹ گولر کپ میں سندھ کی طرف سے کھیلتے ہوئے تین سینچریاں اسکور کیں۔ فائنل مقابلے میں فضل محمود کے سامنے 158 رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔ پھر اسکول کی نمایندگی کرتے ہوئے ٹرپل سینچری داغی۔ اس اننگز نے عبدالحفیظ کاردار کو متوجہ کیا۔ ایک فرسٹ کلاس میچ میں موقع ملا، جس میں بہ طور وکٹ کیپر انھوں نے تیرہ شکار کیے۔ اس وقت پاکستان کرکٹ کا آئی سی سی سے الحاق نہیں ہوا تھا، ورنہ یہ ورلڈ ریکارڈ ہوتا۔
52ء میں ہندوستان کے دورے پر جانے والی ٹیم میں انتخاب ہوا۔ باقی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔ اُسی دورے میں انھیں ’’لٹل ماسٹر‘‘ کا لقب ملا۔
دوران گفت گو ویسٹ انڈیز کی خلاف کھیلی 337 رنز کی تاریخ ساز اننگز کا تذکرہ آیا۔ اس انوکھی باری کا راز پوچھا، تو عاجزانہ لہجے میں کہنے لگے:’’میں ایک عام سا کھلاڑی تھا، بس ایک ہی خوبی تھی، یک سوئی!‘‘
59 ء میں کراچی کی طرف سے کھیلتے ہوئے 499 رنز داغ کر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ہندوستان کے خلاف ایک سائیڈ میچ میں 222 رنز اسکور کیے۔ جوتوں کے نقص کی وجہ سے پیر سوج گئے۔ تین ہفتے بستر پر رہے۔ ڈاکٹروں نے ناخن نکال دیے۔
پاکستانی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے چہرے پر کرب کا تاثر تھا۔ سمجھتے تھے کہ اُن کے خلاف سازش ہوئی۔ ایک پوری لابی اُن کے خلاف تھی۔ جب تین بھائی بہ یک وقت ٹیم میں کھیل رہے تھے، اُس وقت تو تنقید عروج پر پہنچ گئی۔ ان پر ریٹائرمینٹ کا دباؤ بڑھنے لگا۔ مخالفین میں ان کے بہ قول، کاردار بھی شامل تھے۔ حنیف محمد کا خیال تھا کہ وہ اُن کے حاسدین کی باتوں میں آگئے تھے۔ ریٹائرمینٹ کے واقعے کا ذکر بڑے غم آگیں انداز میں کیا کرتے تھے۔ دُکھ تھا کہ انھیں محنت کا صلہ نہیں ملا۔ یہ شکوہ بھی ہے کہ کچھ حلقے محمد خاندان کے خلاف تھے۔
جب ان کے صاحب زادے، شعیب محمد کا تذکرہ آیا، تو چہرہ کِھل گیا۔ انھیں خود سے اچھا بیٹسمین ٹھہرایا۔ مگر پھر دُکھی ہوگئے۔ کہنے لگے: ’’شعیب کو حنیف محمد کا بیٹا ہونے کی سزا دی گئی۔‘‘ موجودہ کرکٹ پر بات کرنے کے لیے وہ اُس زمانے میں تیار نہیں تھے کہ کئی باتوں پر انھیں قلق تھا۔
بڑے کھرے آدمی تھے۔ دنیا اُنھیں ’’ریورس سوئپ‘‘ کا موجد کہتی تھی، مگر اُنھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ اِس شاٹ کے اصل خالق اُن کے بھائی، مشتاق محمد تھے۔
گفت گو کے دوران دیگر موضوعات زیر بحث آئے۔ جیمز بانڈ کی فلموں کے وہ شایق تھے۔ شاہ رخ خان کی فلمیں ’’کبھی خوشی کبھی غم‘‘ اور ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ بھی بہت پسند تھیں۔ قوالیوں کے مداح۔ صابری برادرز کو شوق سے سنا کرتے تھے۔
اِسی دوران پوچھا، کھانے میں کون سی ڈش پسند ہے؟
سوال سنتے ہی چونکے۔ گھڑی کی سمت دیکھا۔ پھر قہقہہ لگایا: ’’آدھے گھنٹے کا کہا تھا یار، اب تو ڈیڑھ گھنٹہ ہوگیا۔ بھوک بھی لگنے لگی ہے۔‘‘
جب کہا؛ آپ کی باتیں سنتے ہوئے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا، تو اُن کے لہجے میں شوخی در آئی۔ ہمارے فوٹو گرافر، اشرف میمن پر، جو آنکھیں موندے بیٹھے تھے، چوٹ کی۔ ’’نہیں نہیں، بور ہوگئے ہوں گے۔ دیکھیں انھیں تو نیند آگئی۔‘‘
جب رخصت ہورہے تھے، شعیب محمد کمرے میں داخل ہوئے۔ اُنھیں بڑی محبت اور فخر کے ساتھ متعارف کروایا۔ ’’شعیب محمد، میرے بیٹے۔‘‘
انٹرویو کرکے لوٹ آئے۔ جس روز شایع ہوا، اُنھیں فون کیا کہ اخبار میں دیکھ لیں۔چند ساعت فون کے دوسری طرف خاموشی رہی۔ پھر کہا۔ ’’بھائی انٹرویو لینے تو آپ میرے گھر آئے تھے، تو اب اخبار۔۔۔‘‘ بات ادھوری چھوڑ دی۔
میں نے فوراً کہا؛ اخبار گھر پہنچا دوں گا۔
کہنے لگے،’’ٹھیک ہے بھجوا دیں۔ ویسے مجھے تو اردو پڑھنی نہیں آتی۔‘‘
بعد میں بھی ان سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر بار اُن کی چہرے پر مسکراہٹ پائی۔
اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ بہت دُور جاچکے ہیں، مگر اپنی حیران کن کارکردگی، اپنی سادگی اور محبت کی بدولت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
(بہ شکریہ: روزنامہ ایکسپریس)