فہیم سلیم
سعودی عرب کے ایک چھوٹے شہر میں ایک خاتون اپنے شوہر اور چھوٹے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کی زندگی سادہ تھی، مگر دل مطمئن تھے، لیکن قسمت نے ان پر ایک ایسا امتحان ڈال دیا کہ انسانیت کا صبر بھی آزمایا گیا۔ ان کا بچہ ایک نایاب اور سنگین بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس کا بہیترا علاج کرایا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، بالآخر مقامی ڈاکٹروں نے والدین پر واضح کردیا کہ اس کا علاج صرف بیرونِ ملک ایک مشہور ماہر ڈاکٹر کے پاس ممکن ہے۔
ماں کے لیے یہ خبر بم کی مانند تھی۔ نہ اتنے پیسے تھے، نہ سفر کے وسائل۔ ہر راستہ بند، ہر دروازہ بند۔ لیکن اس کے دل میں ایک روشنی باقی تھی: اللہ پر کامل یقین۔
رات کے سناٹے میں، جب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی اور ہوائیں سخت چل رہی تھیں، وہ ماں اپنے بچے کے سرہانے بیٹھ کر دعا کررہی تھی۔ اس کی دعا سادہ مگر خالص تھی: "یااللہ! اگر میرے بچے کی شفا اسی ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہے تو تُو ہی ہمیں اس تک پہنچادے۔ میرے پاس کچھ نہیں، مگر تُو سب کچھ کرسکتا ہے۔” ہر آنسو جو اس کی آنکھوں سے بہتے، وہ مایوسی کے نہیں بلکہ ایمان اور امید کے تھے۔ ہر لمحہ دعا کے ساتھ صبر بھی اس کا ساتھی تھا۔ وہ روزانہ اپنے لاڈلے کے علاج کے لیے رب کے حضور دعا کرتی۔
وقت گزرتا رہا اور بچے کی حالت دن بہ دن بگڑتی رہی۔ ایک رات موسم انتہائی خراب تھا۔ تیز ہوائیں چل رہی تھیں، بارش ہورہی تھی، سردی کمر توڑ رہی تھی۔ لوگ گھروں میں دبکے ہوئے تھے، لیکن وہ ماں اپنے بچے کے لیے دعا کے جذبے سے پوری طرح جاگ رہی تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ شوہر نے حیرت سے دروازہ کھولا تو سامنے ایک باوقار شخص کھڑا تھا۔ وہ تھکن سے چُور تھا مگر اس کی موجودگی میں ایک عجیب سکون محسوس ہوتا تھا۔
اس شخص نے نرمی سے کہا: “میں سفر میں تھا، مگر موسم کی شدت کی وجہ سے آگے نہیں جاسکا۔ کیا میں کچھ دیر یہاں ٹھہر سکتا ہوں؟” عرب معاشرت میں مہمان نوازی ایک سنت ہے۔ شوہر نے فوراً اسے اندر بلایا۔ خاتون نے اپنی محدود استطاعت کے باوجود چائے اور کھانا پیش کیا۔ کھانے کے دوران اس شخص کی نظر بچے پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں فکری جھلک تھی۔ وہ خاموش دیکھتا رہا، کچھ دیر گزرنے کے بعد اُس نے اُن لوگوں سے نرمی سے پوچھا کہ بچے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔
ماں دل کا بوجھ زبان پر لے آئی۔ اس نے بتایا کہ بچے کی بیماری سنگین ہے، ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ علاج صرف ایک مخصوص ماہر کے پاس ممکن ہے اور اس کے پاس جانے کے وسائل نہیں ہیں۔ اس نے ڈاکٹر کا نام بھی لے لیا، وہی نام جس کے لیے وہ مہینوں سے دعا کررہی تھی۔
وہ شخص تھوڑا دیر خاموش رہا، پھر ایک لمحے میں بولا: “بی بی… اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں، وہ اپنے بندوں کی ضرور سُنتا ہے اور جس ڈاکٹر کا آپ ذکر کررہی ہیں… وہ میں ہی ہوں۔” ماں کو یقین نہیں آیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یہ کیسی کرامات ہے؟ وہی ڈاکٹر جس کے پاس جانے کے لیے وہ آنکھیں بند کرکے دعا کرتی رہی، اب ان کے گھر کے دروازے پر موجود تھا!
ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ سعودی عرب میں ایک کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں سفر کررہا تھا، لیکن خراب موسم کی وجہ سے راستہ بدل گیا اور وہ اتفاقاً اس گھر کے دروازے تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا میں سعودی عرب میں ایک ماہ قیام کروں گا اور اس دوران ان شاء اللہ آپ کے بچے کا علاج مکمل ہوجائے گا اور یہ بھی دیگر بچوں کی طرح کھیلے کودے گا۔ سب سے بڑھ کر بیمار بچے کے والدین کو ڈاکٹر نے علاج مکمل طور پر مفت کرنے کی پیشکش کی۔ نہ فیس، نہ سفر کے اخراجات، نہ اسپتال کے لیے کوئی پیسہ۔ اس نے صرف کہا: “یہ میرا نہیں، اللہ کا کام ہے۔”
ڈاکٹر نے بچے کا علاج شروع کیا اور چند دنوں میں بچہ صحت یاب ہونے لگا۔ ماں کی آنکھوں سے جو آنسو نکلے، وہ بے بسی نہیں بلکہ شکر اور ایمان کی خوشی کے آنسو تھے۔
ماں نے بعد میں کہا: "میں نے کسی انسان کے دروازے پر دستک نہیں دی، میں نے صرف اللہ سے مانگا… اور اللہ نے خود دروازہ کھٹکھٹا دیا۔”
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اللہ پر کامل یقین کبھی ضائع نہیں جاتا۔ دعا میں تاخیر قبولیت نہیں بلکہ ترتیب ہے۔ مشکل حالات میں صبر اور خالص نیت انسان کو معجزات تک لے جاتی ہیں۔ ماں کی دعا میں خاص تاثیر ہوتی ہے۔
یہ کہانی ایک ایمان افروز مثال ہے۔ جب سب راستے بند ہوں، وسائل ختم ہو جائیں، اور امید ختم ہوجائے، تب بھی اللہ کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف مدد کرتا ہے بلکہ بعض اوقات خود انسان کے دروازے پر مدد پہنچا دیتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مشکلات جتنی بھی بڑی ہوں، اللہ کی رحمت ان سے کہیں بڑی اور وسیع ہے۔ ایمان اور دعا کی طاقت کے آگے تمام رکاوٹیں دُور ہوجاتی ہیں۔