اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج پر تنقید برداشت نہیں کریں گے، مجھ پر تنقید تو نواز شریف اور ایاز صادق نے بھی کی تاہم ہم نے برداشت کی۔
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، ذرائع کے مطابق اجلاس میں بریفنگ کے بعد سوالوں کے جوابات آرمی چیف نے خود دیے، پہلا سوال مشاہد حسین، دوسرا شہباز، تیسرا بلاول بھٹو اور چوتھا شاہ محمود قریشی نے کیا جب کہ سیاسی و عسکری قیادت میں زیادہ گپ شپ کھانے کی میز پر ہوئی، بریفنگ کا مقصد ملک کی سیکیورٹی پالیسی کی سیاسی اونرشپ لینا تھا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ماحول اچھا تھا اور کسی معاملے پر بھی تلخی نہیں ہوئی جب کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں برف پگھلی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے اسپیکر دفتر کو باقاعدہ کہا گیا تھا کہ وزیراعظم اجلاس میں نہ آئیں۔
بریفنگ کے دوران عسکری حکام نے سیاسی قیادت کوبتایا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات ہیں تاہم پاکستان، چین، روس، ایران چاہتے ہیں افغانستان میں خانہ جنگی یا جغرافیائی تقسیم نہ ہو، طالبان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں اور نہ ہی ان پر ہمارا کوئی دباؤ ہے جب کہ سی پیک میں ہم چین کے ساتھ ہیں، اس لیے امریکی ناراض ہیں۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ کہ افغانستان میں مقامی فوجی چار ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر خود طالبان سے ملتے جارہے ہیں جب کہ افغان طالبان کی فیملیز عرصہ سے پاکستان میں ہیں، پاکستان میں افغان مہاجرین کے دو سو مدارس بھی ہیں، خانہ جنگی ہوئی توپانچ سے سات لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں تاہم مہاجرین کو ایران طرز پر بارڈر کے قریب کیمپوں میں رکھا جائے گا جب کہ ٹی ٹی پی اور پاکستان دشمن لوگ مہاجرین کی شکل میں آسکتے ہیں لہذا انہیں روکنا ضروری ہے۔
بریفنگ میں عسکری قیادت نے کہا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے چھ ہزارسے زائد لوگ موجود ہیں، داعش کے دو سے تین ہزار افراد شام سے افغانستان منتقل ہوگئے، داعش کے لوگ مختلف بارڈرز پر جارہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو کے سات ہزار دو سو پچاس اور پندرہ سو امریکی فوجی موجود ہیں، چھ، سات سو فوجی امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے موجود رہیں گے جب کہ بھارت اور طالبان کا ابھی تک براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کہ دوران آرمی چیف نے کہا کہ آپ کے ساتھ ہم کھانا کھائیں گے، ناشتہ بھی کرنے کو تیار ہیں، اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور سیکیورٹی صورت حال پر بریفنگ لینا ہے، کچھ دن بعد پھر اجلاس بلا لیتے ہیں جس پر آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، بے شک ویک اینڈ پر ہی اجلاس رکھ لیں۔
اجلاس میں آرمی چیف نے رہنما (ن) لیگ احسن اقبال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بیٹے سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ملا تھا، رہنما (ن) لیگ مشاہد حسین نے کہا کہ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) پر ہاتھ ہولا رکھیں جس پر آرمی چیف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ فواد چوہدری بھی ساتھ ہی کھڑے ہیں آپ کے۔
ذرائع کے مطابق کھانے کی میز پر رانا ثناء اللہ اور رانا تنویر بھی آگئے تو جنرل باجوہ نے کہا میری تو بیوی بھی راجپوت ہے اور میرے چھوٹے بیٹے کی منگنی پشتونوں میں ہوئی، اس کے علاوہ پاکستان کی فوج میں 40 فیصد پشتون ہیں، ہم سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اس موقع پر چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے کہا کہ پی ٹی ایم کے ایم این اے علی وزیر کو معاف کر دیں جس پر آرمی چیف نے کہا کہ پاکستانی فوج پر تنقید برداشت نہیں کریں گے لہٰذا علی وزیر کو بھی معافی مانگنا ہوگی، مجھ پر تنقید تو نواز شریف اور ایاز صادق نے بھی کی تاہم ہم نے برداشت کی۔
اس دوران محسن داوڑ نے اٹھ کر بولنے کی کوشش کی تو اسپیکر نے روک دیا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آپ کھل کر بات کریں، محسن داوڑ آپ مجھ سے علیحدگی میں بھی ملے، کبھی آپ کاراستہ نہیں روکا، آپ الیکشن جیت کر آئے ہیں لہٰذا آپ کی بات سننے کو تیار ہیں، فوج پر الیکشن میں مداخلت کا کہتے ہیں، اگر ہم مداخلت کرتے تو آپ کیسے جیتتے، آپ نے جب کہا میں آپ سے ملا۔