نیویارک: عالمی درجہ حرارت میں آئندہ پانچ برسوں میں ہولناک حد تک اضافے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں، عالمی درجہ حرارت میں صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ 5 سال کے اندر ہونے کا قوی امکان ہے۔
یہ انتباہ اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی جانب سے کیا گیا۔
عالمی ادارے کے مطابق 2023 سے 2027 کے دوران کم از کم ایک بار درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ ہونے کا امکان 66 فیصد ہے۔
ڈبلیو ایم او کی جانب یہ انتباہ Global Annual to Decadal Climate Update رپورٹ میں کیا گیا۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ آئندہ 5 برسوں میں کم از کم کسی ایک سال کے دوران درجہ حرارت عارضی طور پر صنعتی عہد کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرجائے گا۔
دھیان رہے کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا۔
لیون ہرمینسن برطانوی محکمہ موسمیات کے سائنس دان ہیں اور وہ عالمی ادارے کی رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک صنعتی عہد کے مقابلے میں درجہ حرارت میں 1.28 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ عارضی طور پر ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ سے تک پہنچ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اشارہ ہے کہ جیسے جیسے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ عام ہوتا جائے گا، ویسے ویسے طویل المیعاد بنیادوں پر موسمیاتی تباہی کا خطرہ بڑھتا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ زہریلی گیسوں کا اخراج درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے اور اگلے 5 برسوں میں ہمیں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈز کی توقع کرنی چاہیے۔
برطانوی ماہر نے بتایا کہ درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ گرین ہاؤس گیسز کے باعث ہوگا مگر ایل نینو لہر بھی اس حوالے سے کردار ادا کرے گی۔
ایل نینو ایک ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایل نینو اور موسمیاتی تبدیلیاں ممکنہ طور پر باہم مل جائیں گی اور اگلے سال عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا۔
ڈبلیو ایم او کے سیکریٹری جنرل Petteri Taalas نے کہا کہ رپورٹ کا مطلب یہ نہیں کہ درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہمیشہ کے لیے ہورہا ہے، تاہم یہ انتباہ کیا گیا کہ ہم اس سطح پر عارضی طور پر پہنچنے والے ہیں اور بتدریج یہ عام ہوجائے گا۔