جدید معلوماتی دور میں بیانیے کی جنگ کی اہمیت

ایمان ملک
غوروفکر کرنا یا بحث و مبحاثہ کرنا ہرگزغلط بات نہیں بلکہ یہ تو زندہ قوموں کی نشانی ہے اگر یہ تمیز کے دائرے میں رہ کر کیا جائے تو، ورنہ یہ زمانہ جہالیت کی عکاسی کرتا ہے۔ غور و فکر اور مکالموں کے عنوان بھی قوموں کی ترجیحات اور ان کی فکری پختگی اورانفرادی سوچ کا پتہ دیتے ہیں نیز یہ کسی بھی معاشرے کی سمت بھی متعین کرتے ہیں۔ آج کل کی ‘معلوماتی جنگ’  کے دور میں جہاں سماجی میڈیا روایتی میڈیا کو افراد کی ذہن سازی اور رائے سازی میں کہیں پیچھے دھکیل چکا ہے وہیں ‘پروپیگنڈا’ اور ‘سائے آپس’ کی اصطلاحات بھی معلوماتی (ڈومین) دور میں کوئی نئی چیز نہیں۔ بلکہ اب یہ باقاعدہ حربی تکنیک کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ جس سے دشمن اپنے ہدف ممالک کے لوگوں کو اپنی ہی ریاست، حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف ورغلانے اور ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کی سعی کرتا ہے۔ سائے آپس یعنی سائیکالوجیکل وارفئیر(نفسیاتی جنگ) میں دشمن لوگوں کے ذہنوں، خیالات اور نظریات کو ضرب لگاتا ہے اور یوں کسی بھی ریاست کی فکری اساس دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہے افراد اپنے قومی اداروں سے متنفر اور ملک سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں یہ جانے بغیر کے وہ دشمن کی لگائی آگ میں جھلسنا شروع ہوگئے ہیں یا اسکی جنگ کا ہدف بن چکے ہیں۔  نفسیاتی جنگ میں میدان جنگ ملک کی زمینی سرحدیں نہیں بلکہ اسکے ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں جہاں سے من گھڑت، غلط ملط، مبالغہ پر مبنی معلومات مختلف ملمع کاری کے ذریعے  لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں اور ان کے ذہنوں کو زہر آلود کر کے ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ نوجوان اپنی ریاست سے منہ موڑ کر باہر بھاگنے  اور دوسرے ممالک کی شہریت لینے کے متمنی بن جاتے ہیں۔
پچھلی ایک دہائی سے معلوماتی ڈومین میں سماجی میڈیا نے اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے۔ جو کہ  دنیا بھر کے ممالک کے لئے حوصلہ افزا نہیں بلکہ ایک تشویشناک امر ہے، کیونکہ سماجی میڈیا پیغام رسانی کا سب سے تیز رفتار ذریعہ ہے جہاں کوئی بھی پیغام بنا کسی تصدیق اور ثبوت کے پل بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں تک پہنچ  کر ایک مہم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جسے سماجی میڈیا کی اصطلاح میں ٹرینڈ کہتے ہیں۔ یہ ٹرینڈز پینل پر آتے بھی ہیں اور لائے بھی جاتے ہیں۔ انکے لائے جانے کا رواج نفسیاتی جنگ کا ایک اہم ترین تکنیکی پہلو ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک پاکستان میں سماجی میڈیا پر بہت سے ٹرینڈز دانستہ طور پر باقاعدہ پلان کے تحت بھارت سے  پینل پر لائے جانے کا انکشاف متعدد بار ہو چکا ہے۔ ان ٹرینڈز میں زیادہ تر پاکستانی فوج، فوجی جرنیلوں یا سپاہ سالار کو ہدف بنایا گیا اور بسا اوقات پاکستان کی دکھتی رگ بلوچستان میں انتیشار کو ہوا دینے اور شیعہ سنی تفرقہ بازی کو بھڑکانے کی مذموم کوششیں قابل ذکر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیوں باآسانی دشمن کی لگائی آگ یا اسکی شروع کردہ فکری جنگ کا شکار ہو رہے ہیں؟ اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے تیلی بھلے دشمن باہر بیٹھ کر لگاتا ہے مگر اس آگ کو بھڑکانے کے لئے آکسیجن کا کام بدقسمتی سے ہمارے اپنے ہی لوگ غیر دانستہ طور پر یا بسا اوقات اپنے کسی سیاسی، سماجی یامخصوص بغض کے پیش نظرسرانجام دیتے ہیں۔ باہر سے تیلیوں پر قابو پانا بلاشبہ حساس اداروں کا کام ہے مگر جب گھر کو گھر کے اپنے چراغوں سے آگ لگنا شروع ہوجائے تو ریاست کو بیدار ضرور رہنا چاہیے کیونکہ یہ کسی بھی بڑے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تو ہے ہی بلکہ یہ آپکی ریاست میں دشمن کے بیانیے کی کامیابی کا بھی منہ بولتا  ثبوت ہے۔  ایسی صورت میں ان چراغوں کو گل کرنا ہی حقیقی سمجھداری ہے ناکہ انہیں رنگ روغن کر کے پھر سے اپنے سرہانے سجانے کی تیاری کرنا۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ستر سال سے بھی زیادہ  کا وقت ہو چلا ہے مگر ہم ابھی تک بد قسمتی سے ایسی حدود و قیود متعین نہیں کر سکے جن کے تحت ریاستی اداروں اور ریاست کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشان عبرت بنایا جا سکے۔ واضح رہے، دشمن کے پروپیگنڈے کا تدارک دوسرے مرحلے میں آتا ہے پہلا مرحلہ آستین کے سانپوں کو کچلنے کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئے روز کبھی سیاسی رہنما تو کبھی کچھ مخصوص نام نہاد صحافی ایسے شوشے چھوڑتے ہیں جنہیں بنیاد/ ریفرنس بنا کر بھارت اپنے چینلز پر رپورٹس نشر کرتا ہے۔ ایسے گھر کی بھیدیوں سے باز پرس ضرور کی جانی چاہیے جو لنکا کو باربار نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں کھلی چھوٹ دینا کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔
ایک اورروش جو پاکستان کے سماجی میڈیا پر گمبھیر صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے اور ملک کو تواتر سے نقصان بھی پہنچا رہی ہے وہ یکے بعد دیگرے مختلف کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی  کا سبب بننا ہے مثلاًعورت کارڈ۔ اس روش کے تحت مغرب سے متاثر چند افراد کا مخصوص ٹولہ اپنی سوچ کو  معاشرے کی اکثریتی آبادی پر تھوپنے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر انہیں کیا فرق پڑتا ہے ان کی دکانیں( نام نہاد این جی اوز) تو باہر سے مظلوم عورتوں کے نام  پر آنے والی فنڈنگ کے بل بوتے پر ہی چمک رہی ہیں۔
 بلاشبہ فیس بک سے لے کر ٹویٹر، یوٹیوب، اسنیپ چیٹ، یا انسٹاگرام سبھی اپنے طور پر اب ‘اسٹریٹجک اداکار’ بن چکے ہیں۔ لہٰذا اس معلوماتی دورکی غیر روایتی جنگ میں شامل ہونے کے لئے ایک خصوصی ‘سوشل میڈیا فورس’ تشکیل دینا قطعاً کوئی اچنبھے یا شرم کی بات نہیں۔ پوری دنیا اس ڈگر پر اب مائل ہو چکی ہے جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق چینی حکومت صرف ایک سال میں 448 ملین سماجی تبصرے گھڑتی اور پوسٹ کرتی ہے۔ روس نے اسی طرح اپنے جغرافیائی سیاسی جگہ کو محفوظ بنانے کے لئے جدید ٹرولز کی جدید حکمت عملی تیار کی ہے۔ علاوہ ازیں، اسرائیلی دفاعی فورس (آئی ڈی ایف) نے سماجی میڈیا کا استعمال  سنہ 2000ء کے دوسرے حصے کے بعد سے میدان جنگ میں ایک قوت ضرب کے طور پر کیا ہے۔ اور تو اور برطانوی فوج نے بھی جنوری 2015ء کے آخری حصے میں ایک خصوصی سماجی میڈیا فورس تشکیل دی تھی۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب اور سماجی میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی بدولت افراد، بالخصوص غیر ریاستی اداکار بہت زیادہ حد تک عام لوگوں اور معاشروں کے اندر تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ وہ بیانیے/ معنی کے خالق بھی ہیں اور اداروں و مشنوں کا مقابلہ کرنے والے بھی، نیز اس کے ساتھ ساتھ وہ عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے اس جدید معلوماتی دور میں بیانیے کی جنگ کی اہمیت کا بروقت ادراک اور اس کی مؤثر کاؤنٹر حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔  یہ بات تو عیاں ہے کہ وقت کے بڑھتے قدموں کے ساتھ چلنے میں ہی سمجھداری ہے۔ لہٰذا اس میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی، کوتاہی یا تاخیر کسی بھی ریاست کے لئے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔
Power of state narrativeWhat is state narrativeWhy is the state narrative necessary