محمد راحیل وارثی
گزشتہ روز عظیم چاکلیٹی ہیرو وحید مُراد کی برسی تھی۔ اس حوالے سے اُن کی زندگی پر مضمون پیش خدمت ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایسے نام کم ہی ملتے ہیں جو وقت کے ساتھ اور نسلوں کے بدلنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں۔ وحید مُراد انہی ناموں میں سے ایک ہیں جنہیں نہ صرف ایک اداکار بلکہ ایک مکمل فنکار اور رومانوی ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اور فن کی کہانی آج بھی پاکستانی سنیما کے شائقین کے لیے متاثر کن ہے۔
وحید مُراد 2 دسمبر 1938 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا اور بچپن سے ہی ان میں فنون لطیفہ اور موسیقی کی دلچسپی تھی۔ تاہم، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا، جو ان کی زندگی کا سب سے بڑا موڑ ثابت ہوا۔ وہ نہ صرف ایک خوبصورت چہرے کے مالک تھے بلکہ ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش اور دلکشی تھی، جس نے ناظرین کے دل جیت لیے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں فلمی دنیا میں عام طور پر چاکلیٹی ہیرو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
وحید مُراد نے اپنی فلمی کیریئر کا آغاز 1960 کی دہائی میں کیا۔ ان کی پہلی مشہور فلم نیلا پربت رہی، لیکن انہیں اصل شہرت 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ارمان سے ملی۔ یہ فلم پاکستانی سنیما کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی اور وحید مُراد کے کیریئر کو نئی بلندیوں پر لے گئی۔ ارمان میں ان کی اداکاری میں جو قدرتی مزاج اور جذباتی انداز تھا، وہ آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
وحید مُراد نے اپنی زندگی میں کئی یادگار فلمیں دی ہیں، جیسے احسان، عندلیب، دوراہا، اور انجمن۔ ہر فلم میں وہ اپنا کردار بخوبی لگن کے ساتھ ادا کرتے تھے، چاہے وہ رومانوی، سنجیدہ یا مزاحیہ ہو۔ ان کی اداکاری میں جو قدرتی اور جذباتی انداز تھا، وہ اس دور کے اکثر اداکاروں میں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ نوجوان لڑکیاں اور خواتین ان کے حسن و دلکشی کے دیوانے تھیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی سینما کے شائقین کے لیے ایک یادگار شخصیت ہیں۔
وحید مُراد کی فلمی شخصیت صرف اداکاری تک محدود نہیں تھی۔ وہ ایک مکمل فنکار تھے جنہوں نے فلم کی مختلف جہتوں میں کام کیا۔ انہوں نے فلم کی تشہیر، موسیقی اور اسکرین پلے کے حوالے سے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتیں دکھائیں۔ ان کے کام کا اثر نہ صرف پاکستانی فلم انڈسٹری میں دیکھا گیا، بلکہ نئے آنے والے فنکاروں کے لیے بھی ایک معیار قائم کیا۔
ان کی ذاتی زندگی بھی عوام کے لیے دلچسپی کا باعث رہی۔ وحید مُراد سادگی پسند اور اخلاقی قدروں کے حامل انسان تھے۔ ان کا برتاؤ اور تعلقات لوگوں کے لیے ایک مثال تھے۔ وہ نہ صرف اسکرین پر دلکش تھے بلکہ حقیقت میں بھی ایک محبت اور احترام کے قابل شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شائستگی اور حسن سلوک نے انہیں نہ صرف فینز کے دلوں میں بلکہ اپنے ساتھی فنکاروں کے دلوں میں بھی خصوصی مقام دیا۔
وحید مُراد کی شخصیت میں جو سب سے بڑی خوبی تھی، وہ تھی ان کی رومانوی اداکاری کی قدرت۔ انہوں نے رومانوی کرداروں کو اس انداز سے نبھایا کہ ہر ناظر خود کو اس کردار میں دیکھتا محسوس کرتا۔ ان کے ہر گانے اور مکالمے میں جو احساس اور دلکشی تھی، وہ آج بھی پاکستانی سینما کے شائقین کے لیے ایک یادگار لمحہ ہے۔
وحید مُراد کا اثر آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کی فلمیں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھی جاتی ہیں اور نئے آنے والے فنکار ان سے متاثر ہو کر اپنی اداکاری کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یاد نہ صرف پرانی نسل بلکہ نئی نسل کے لیے بھی ایک تحریک ہے کہ وہ اپنے کام اور اخلاقیات میں معیار قائم کریں۔
وحید مُراد 23 نومبر 1983 کو وفات پاگئے، لیکن ان کا فن، ان کی یادیں اور ان کا اثر آج بھی پاکستانی فلمی دنیا میں زندہ ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی فنکار وہ ہیں جو صرف اپنی اسکرین تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنی شخصیت، اخلاق اور کام کے معیار سے دنیا پر اثر ڈالیں۔
آج ان کی برسی کے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وحید مُراد صرف ایک اداکار نہیں تھے بلکہ ایک ثقافتی ورثہ بھی چھوڑ کرگئے۔ ان کی فلمیں، ان کی شخصیت اور ان کے کام کا معیار ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حسن، قابلیت اور اخلاقیات کی بہترین امتزاج سے فنکار کی شناخت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
وحید مُراد ہمیشہ پاکستانی سینما شائقین کے دلوں میں چاکلیٹی، رومانوی اور لازوال ہیرو کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ان کی یاد ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ایک حقیقی فنکار وہ ہوتا ہے جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور انسانی قدر و وقار کے ذریعے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے۔