جب تک انٹرنیٹ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس وقت تک انسان اپنے قریبی ماحول تک ہی محدود تھا۔ انٹر نیٹ کے آتے ہی دنیا انسان کی مٹھی میں آگئی اور بہت سے وقت طلب کام فوری انجام پانے لگے۔ کمپیوٹر نے گھریلو بجٹ سازی اور کمپوزنگ کی ذمے داری تو نبھائی لیکن ساتھ ہی گھڑی، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر اور پھر ٹیلی فون کی کمی بھی پوری کردی۔
سوشل میڈیا مختلف نیٹ ورکس سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک تک پہنچا تو جیسے دنیا مزید سمٹ گئی۔ برسوں ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم اسٹوڈیوز کے گرد چکر لگانے والے ناکام اداکار سوشل میڈیا کے ہیرو قرار پائے اور یہ ٹک ٹاکرز اب رونے، گانے، رقص کرنے اور اپنی مختلف حرکات سے سوشل میڈیا صارفین کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے کی کوشش میں کئی ٹک ٹاکرز جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
آج ہمارا موضوع سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز وائرل کرنے والے ایسے صارفین یا ٹک ٹاکرز ہیں، جنہوں نے مزے مزے میں علاقائی وڈیروں، سرداروں اور چودھریوں کے خلاف سوشل میڈیا پر خوب بڑھکیں ماریں، لیکن ہوا یہ کہ طاقتور وڈیرے، سردار یا چودھری نے ٹک ٹاکر کو اپنی بیٹھک، اوطاق یا ڈیرے پر بلاکر ان کی وہ درگت بنائی کہ ٹک ٹاکر کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا، بلکہ ٹک ٹاکر سے اس کی مرضی کے خلاف ایک بیان ریکارڈ کرایا جاتا ہے جس میں اس سے اس بات کا اقرار کرایا جاتا ہے کہ اس نے گزشتہ ویڈیو میں جو کچھ کہا تھا وہ سراسر غلط تھا اور اب وہ اس ویڈیو پر نہ صرف شرمندہ ہے اور ان افراد سے معافی کا خواستگار بھی ہے اور یہ کہ وہ آئندہ ایسی کوئی ویڈیو نہیں بنائے گا۔ اسے سوشل میڈیا کی زبان میں "سافٹ ویئر اپڈیٹ” کہا جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک سافٹ ویئر اپڈیٹڈ ٹک ٹاکر کی ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک ٹک ٹاکر نے بعض پرانی پنجابی فلموں کے انداز میں پولیس کی تضحیک کی تھی۔ اسی ویڈیو کے بعد ٹک ٹاکر کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کردیا گیا اور پھر دوسری ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس میں ٹک ٹاکر نے کہا کہ وہ پولیس کے تمام افسران سے معافی مانگتا ہے اور وہ دوبارہ ایسی ویڈیو کبھی نہیں بنائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کی ویڈیوز کسی مخصوص طبقے یا گروہ کی جانب سے سامنے نہیں آتیں، بلکہ کبھی فریق اول اپنی ویڈیو خود سوشل میڈیا پر وائرل کردیتا ہے اور فریق دوئم کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔ کبھی فریق دوئم فریق اول کو قابو کرلیتا ہے اور اس دوران اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کردیتا ہے۔
ساہیوال میں پولیس کے ہاتھوں ایک سوزوکی ہائی روف میں سوار افراد کے قتل کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس نے ملک بھر کو افراد کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ اسی طرح پولیس کے ہاتھوں شہریوں کو مختلف ناکوں پر روکے جانے کے دوران گاڑیوں کے کاغذات نہ ہونے یا اشارے کے باوجود نہ رنکنے کی صورت میں پولیس پوچھ گچھ کے دوران ان افراد کی ویڈیو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں، اور بعض اوقات پولیس کی جانب سے پیسے مانگے جانے یا پھر کاغذات اور دیگر دستاویزات کے باجود روکے جانے پر شہری بھی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے پیسے مانگے جانے اور تشدد کے خلاف بے شمار ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شہری یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جانب سے بلا اجازت ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا عمل قانونی جواز رکھتا ہے؟ سماجی اخلاقیات اور ملکی قوانین اس سلسلے میں کیا رہنمائی کرتے ہیں اور ہمارا مذہب اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔
مندرجہ بالا سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے چند شخصیات سے ان کا مؤقف سنا ہے جو اپنے قارئین کی معلومات کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
مولانا جمیل ناصر
مولانا جمیل ناصر صاحب سے کہتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے مطابق کسی کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنانا اور نشر کرنا جرم ہے، جس کی سزا 3 برس قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے اور یہ سزا جرم میں شریک لوگوں پر بھی لاگو ہوگی۔ باقی شرعی لحاذ سے بھی کسی کی اجازت کے بغیر ایک تحریر نشر کرنا درست نہیں ویڈیو کی کیسے ہوسکتی ہے۔ اگر ویڈیو میں ایسی کوئی شرعی خرابی نہ ہو، یعنی کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو، کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو اور اس کا شیئر کرنا اصلاح کا باعث ہو اور یوٹیوب یا پلے اسٹور سے اسے ڈاؤن لوڈ کرنا منع نہ ہو تو ان دو پلیٹ فارمز سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتاہے، نیز شیئر کا آپشن ہو تو یہاں سے شیئر بھی کیا جاسکتاہے۔ البتہ اس حوالے سے قانون کی رعایت ضروری ہے۔دوسری بات یہ کہ ویڈیو میں اگر شرعی قباحت ہو تو وہ تو ایسے ہی شیئر کرنا جائز نہیں، پھر وہ ویڈیو کیسے کسی کی عزت کے ساتھ کھلینے کے لئے یا بلیک ملینگ کے لئے نشر کی جاسکتی ہے۔ کسی شخص یا ادارے کی عزت نفس کا مجروح ہونا ، یا پھر جس سے متعلق فلم بنائی جارہی ہو یا ویڈیو بنانے والے کی جان کا خطرہ ہونا بھی شرعی قباحتوں میں شامل ہے۔ اگر پولیس کا کسی مجرم کو پکڑ کر اس کی سزا کی تشہیر اس نیت سے کیا جاتاہے اور اس کی قانون اجازت دیتاہے کہ وہ اس کو دیگر عوام کی عبرت کےلئے نشر کریں تو اس میں شرعاً گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن ویسے ہی کی جارہی ہے تو یہ درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ شریعت میں سزا کی تشہیر ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ شرعاً مجرم کی سزاوں کی تشہیر کی اجازت ہے، لیکن وہ بھی حاکم وقت کے حکم پر۔
سدرہ ڈار: صحافی
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کا مواد آرہا ہے اور اکثر کسی ادارے یا افراد کے خلاف ویڈیوز جاری کرنے کے بعد معافی تلافی کی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی کی اجازت یا مرضی کے بغیر نہ تو اس کی ویڈیو بنائی جاسکتی ہے اور نہ کہیں پوسٹ کی جاسکتی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، پہلی یہ کہ اگر کوئی صحافی ہے اور وہ کسی چیز کو بطور خبر منظر عام پر لانا چاہتا ہے مثلاً کسی کرپشن کی نشاندہی کرنی ہے، اس میں بھی ایک حد تک اجازت ہے، لیکن ٹک ٹاک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں صرف اور صرف تفریحی مواد شیئر کیا جاتا اور دیکھا جاتا ہے، اور جس عمر کے افراد ٹک ٹاک دیکھتے ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف تفریح حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ٹک ٹاک ویڈیو میں کسی ادارے یا کسی شخصیت کی تضحیک یا تذلیل کرنا کوئی اچھا رجحان نہیں ہے۔یقیناً یہااں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” والا معاملہ ہے کہ جب کوئی طاقت ور کسی کمزور کا قابو کرلیتا ہے تو وہ اس سے وہی کہلواتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس رجحان پر پابندی ہونی چاہیے کہ کوئی کسی کی ویڈیو اس کی اجازت کے بغیر نہ بنائے اور کسی ادارے کا نام لے کر یا کسی شخصیت کا نام لے کر یا اسے مخاطب کرکے اسے بدنام کرنا اور بعد میں یہ کہہ دینا کہ ایسا تو ہم نے صرف تفریح کے مقصد سے کیا تھا اور اس کا کوئی سیاسی یا دیگر مقصد نہیں تھا اور اب میں اس کی معافی چاہتا ہوں تو یقیناً وہ معافی اس نے دل سے نہیں مانگی کیوں کہ اگر ویڈیو بنانے والا شخص اگر اس عمل کو برا سمجھتا تو ویڈیو بناتا ہی نہیں۔ پھر ایسی ویڈیو بنا کر اس چیز کا کیوں انتظار کیا جائے کہ کوئی اس ویڈیو کا نوٹس لے اور زبردستی اس سے معذرتی کلمات کہلوائ۔ اگر زبردستی ایسی ویڈیو بناکر شیئر کی جائے تو اس ویڈیو کا وہ تاثر کبھی قائم نہیں ہوسکتا، جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں قانون سازی ہونی چاہیے اور اخلاقی طور پر بھی لوگوں کا یہ فرض ہے کہ ایسی ویڈیوز بنانے اور انہیں شیئر کرنے سے گریز کریں۔
ایاز خان ایڈووکیٹ ہائیکورٹس
پاکستان میں PECA قانون ہے، جس کا مطلب ہے پروٹیکشن آف الیکٹرانک کرائم ریگولیشن 2016۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو یا کسی بھی ادارے کی اجازت کے بغیر اس کی فلم بنانا یا اس سے متعلق کوئی بات کرنا لانا قانوناً جرم ہے۔ یہ تو ہوا کسی بھی شخص یا دارے کو فلم کرنا یا فریم کرنا۔ دوسری اہم بات یہ کہ کسی بھی ادارے کی تضحیک کرنا یا تمسخر اڑانا تعزیرات پاکستان میں بھی جرم ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ کسی بھی ادارے سے مراد کسی بھی ریاستی ادارے کو مثال کے طور پر پولیس کو بھی تضحیک کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے کیوں کہ اگر ہم کسی بھی ریاستی ادارے کی تضحیک کرتے ہیں تو لوگوں کے ذہنوں پر اس ادارے سے متعلق منفی اثر پڑتا ہے، اس وجہ سے یہ عمل قانوناً ممنوع ہے۔ ہمیں اپنی ویڈیوز یا ٹک تاک وغیرہ میں کسی بھی فرد یا ریاستی ادارے کو نشانہ بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔