تحریر: محمد فیضان خان
مشہور امریکی مزاح نگار "مارک ٹوین” کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران بتایا، "میرے بچپن کا زمانہ مفلسی کا زمانہ تھا۔ ہم لوگ اس قدرغریب تھے کہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کتا بھی نہیں رکھ سکتے تھے، چنانچہ رات کو جب کوئی آہٹ سنائی دیتی تو ہمیں خود ہی بھونکنا پڑتا تھا۔”
درحقیقت ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہ معاشرہ بھی اسی واقعہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس معاشرے میں انسان کی پہچان اور قدر اسکی مہارت ، ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ مال و دولت کے اظہار سے ہوتی ہے۔
جو لوگ آج دولت مند ہیں کل یہ غریب تھے۔ یہ اپنے یا اپنے والدین کے ماضی کو یاد کریں اور جو لوگ آج بھی سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ حقیقت حال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ہمارا معاشرہ پیسے اور دولت کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ کوئی مالدار ہے اور پیدل چلتا ہے تو ہم اسے "جاگنگ” کہتے ہیں کوئی غریب عورت اگر سواری کے انتظار میں روڈ پر کھڑی ہو تو نہ صرف لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں بلکہ سواری والا بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ مالدار شخص بغیر پریس کی قمیض پہن کر دعوت میں آجائے تو ہم اسے سادگی اور جدید فیشن کا نام دیتے ہیں کوئی متوسط شخص اگر مناسب کپڑے پہن کر آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ میزبان کی ناک کٹوانے کے لئے آ گیا ہے۔ امیر کا بچہ شرارت کرتا ہے تو تم اسے ذہین کہتے ہیں یا کہتے ہیں کہ اوہ کتنا ناٹی ہے ویری کیوٹ، اور جب غریب کا بچہ یہی کچھ کرتا ہے تو ہم اس سے بدتمیز اور شیطان کہتے ہیں اور اس کے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں۔ امیر کے پالتو کتے کو دیکھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں اور کہتے اوہ کتنا پیارا ٹومی ہے غریب کے خوبصورت بچے کے چہرے بھی ہمیں بدنما نظر آتے ہیں۔ امیر اگر شادی پر خرچ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ کتنی سادگی سے شادی کی ہے اور اگر غریب اپنی غربت کی حالت میں جہیز نہ دے پائے تو رشتے داروں کے طعنے ختم نہیں ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ معاشرہ دولت پسند معاشرہ ہے یہاں عزت پیسے کی ہوتی ہے یہاں ہرمند اور قابل شخص کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ یہاں ترقی صرف پیسے والا ہی کر سکتا ہے کامیابی صرف پیسے والا ہی دیکھ سکتا ہے اگر کوئی غریب شخص کے پاس کسی وجہ سے پیسہ آجاتا ہے اور وہ بڑے بنگلے میں رہتا ہے اور بڑی گاڑی میں گھومتا ہے تو اس کے وہ رشتہ دار جو اس کو کل غریب ہونے کی وجہ سے اسے منہ بھی نہیں لگاتے تھے آج اس کے آگے پیچھے گھومتے نظر آتے ہیں. جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں ، وہاں صرف دولت اور پیسوں کے بلبوتے پر ہی مشکلات اور آسانیوں کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ امیر کا بچہ اگر کوئی جرم کرکے پکڑا بھی جاتا ہے تو پیسے دے کر چھڑا لیا جاتا ہے اور غریب انسان بے گناہ بھی سزائیں کاٹ کر آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں مستقل طور پر بتایا جارہا ہوتا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہو تو آپ کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
درحقیقت ، ہمارے معاشرے میں کسی شخص کی پہچان یوں نہیں ہوتی کہ وہ خود کیا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور اسکا بیک گراؤنڈ کیسا ہے۔ جس کے پاس دولت ہو پیسہ ہو اسکی ہر شخص عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر غریب کے پاس اگر بہترین حسن و اخلاق ہو اور عزت دار ہو لیکن اکثر بیشترغریب کا مقدر رسوائی اور بے عزتی ہوتا ہے۔
ہم پیسے سے اپنا اسٹیٹس تو بدل سکتے ہیں اور اگر وقت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیں تو اس لحاظ سے پیسے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ پیسے سے زندگی کی ساری آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں مگر پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوسکتا اور رزق صرف پیسے ہی کا نام نہیں بلکہ کاروبار میں برکت وعزت، گھر میں محبت و سکون ، معاشرے میں عزت ، دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات یہ چیزیں بھی دولت کا حصہ ہیں اگر ہمیں معاشرے سے اس روش کا خاتمہ کرنا ہے تو پیسے کی بنیاد پر لوگوں کو جانچنا بند کرنا پڑے گا۔ اور "صرف پیسہ بولتا ہے” جیسے جملے کو اپنی سوچ اور تصورات کے ساتھ "صرف پیسہ ہی نہیں بولتا” میں بدلنا پڑے گا۔