افغانستان میں امریکہ بہادر باون ممالک کے ہمراہ ہزیمت کا شکار ہوکر محفوظ راستہ لے کر نکل چکا۔ سپرپاور کے گھمنڈ نے اسے اس زعم میں مبتلا کئے رکھا کہ ڈھیلے ڈھالے کرتوں میں ملبوس، ہاتھ میں تسبیح اور لوٹا تھامنے والوں کو ایک لمحے میں نیست و نابود کرکے خطہ ایشیا میں اپنی دھاک بٹھادے گا، مگر امریکہ بہادر کو کیا معلوم تھا کہ اس کا مقابلہ ایسی فوج کے ساتھ ہے جو اللہ پر یقین اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہے، جو پاؤں میں چپل تو پھٹی ہوئ پہنتی ہے مگر عزم و استقلال کوہ ہمالیہ کی مانند رکھتی ہے، جو روسی ساختہ قدیم اسلحہ رکھتے ہیں مگر دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ کو راکھ میں تبدیل کردینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
دنیا کی باون طاقتوں نے اتحاد کرکے امن کے نام پر جو افغانستان میں بدامنی کاناچ نچایا ہے، تاریخ دانوں نے اگر قلم سے وفا کی تو امن جیسی سفید چڑیا کے اس قتل عام پر ضرور سچائی سے پردہ اٹھائیں گے۔ حالات کی نہج تبدیل ہوچکی ہے۔ سپرپاور کی طاقت کی منتقلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ سوویت یونین کی تاریخی شکست کے بعد دنیا کے نقشہ پر امریکہ تنہا طور پر سپر پاور ابھرآیا تھا۔ حالات و واقعات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ دنیا کے افق پر اب ایک نئی سپر پاور کا ظہور ہورہاہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے افغانستان میں حکومت کا بلامقابلہ فرار ہونا، طالبان کا حکومتی امور پر آسانی سے کنٹرول حاصل کرنا خطہ کی سیاست پر اثر انداز تو ضرور ہوگا مگر کئی سوالات ضرور جنم دے گا۔ بیس سال مسلسل جنگ کے بعد ہار نہ ماننے والے امریکہ نے یکدم اپنی اسٹریجٹی کیسے تبدیل کی، یہ قضیہ حل طلب ہے۔ کیا امریکہ معاشی وجہ سے ڈسٹرب ہوا یا پہر پالیسی ساز قوتوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کو مجبور کیا کہ اب افغان جنگ سے جان چھڑائی جائے؟مذاکرات کا راگ اوباما دور سے لاپا جارہاتھا، پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی مذاکرات اور جنگ بندی کے بیانات سامنے آتے رہے، مگر آج امریکہ کا اچانک افغان حکومت کو بے آسرا چھوڑ کر چلاجانا پینٹا گون کی نئی پالیسی کا اشارہ دے رہاہے۔ نئی پالیسی کیا ہوگی اور اس کے نتائج کیا ہونگے یہ تو آنے والا دور ہی بتاۓگا، مگر امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ ملک کا دفاع کرنا افغان فوج کی ذمہ داری ہے۔ افغانستان کے عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20سال کی جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے، جبکہ دوسری طرف امریکی تربیت یافتہ افغان فوج کا یہ عالم ہے کہ مزاحمت کیے بغیر افغان صوبوں کا کنٹرول یکے بعد دیگرے طالبان کے حوالے کردیے گئے۔ اس صورتحال میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کہاں کھڑے نظر آتے ہیں اور ان پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ اس پر ہمسایہ ممالک کے مقتدر ادارے ضرور اپنا پلان رکھتے ہونگے، مگر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد سے افغان اور پاکستان کی حکومت کے درمیان زبانی چپقلش جاری ہے۔ اس دوران افغان حکومت نے پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اس الزام کی بارہا تردید کی ہے۔ اس تمام صورتحال میں جہاں افغانستان سے بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد سرحدوں کی جانب بڑھ رہی ہے، وہیں پاکستان اس بات کو بارہا دہرا رہا ہے کہ وہ اب مزید افغان پناہ گزینوں کو پناہ نہیں دے گا اور قومی مفاد میں رہتے ہوئے فیصلے کرے گا۔ اسی طرح ماہرین اور خطے کی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھی اس وقت مشکلات سے دو چار ہیں۔ امریکہ پاکستان کو صرف افغانستان میں گند صاف کرنے کے لیے مؤثر سمجھتا ہے۔ اور امریکہ کا رویہ اب پاکستان سے اس لیے بھی مختلف ہے کیونکہ امریکہ اب انڈیا کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے جمعے کو جاری وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں خطے اور خاص طور سے افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ اب پاکستان کو یہ سمجھنا ہے کہ جب تک وہ افغانستان کے اندر طالبان سمیت مختلف گروہوں کے ساتھ مفاہمتی رویے کو بڑھاوا نہیں دیتا تو یہ اس کے لیے سب سے خطرناک ہو گا۔