یہ احساس کہ آپ ڈاکٹر حسن منظر جیسے فکشن نگار کے عہد میں زندہ ہیں، اسے پڑھ چکے ہیں، سن چکے ہیں، اس سے مل چکے ہیں، ایک بے بدل احساس ہے۔
ان متعدد انٹرویوز کے باعث، ان ملاقاتوں کے باعث، جہاں ریکارڈنگ کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر بس انھیں سنا، اور آرٹس کونسل کے ان سیشنز کے طفیل، جہاں ان کی صدارت میں ہم نے نظامت کی، ایک ایسا بیش قیمت موقع میسر آیا، جس پر ناز ہی کیا جاسکتا ہے۔
حسن منظر ایک صاحب اسلوب فکشن نگار ہیں، جس کے ہاں غیرملکی لوکیل اتنی پختگی سے منظر ہوتا ہے کہ اس پر بین الاقوامی ادب کا گمان ہونے لگے۔
ان کے ہاں جملے کی ساخت میں تازگی ہے، اور بات کہنے کے ڈھب میں نیا پن۔ تکنیک کے نئے نویلا تجربات کے بغیر بھی ان کا فکشن جدید عصری ادب کے خانے میں یوں فٹ بیٹھتا ہے، جسے وہ اسی کے لیے بنا ہو۔
جو تنوع ان کے ہاں، اس کی مثال ذرا کم ہی ملتی ہے۔ خطہ عرب پر ان کی گہری نظر۔ فلسطین اسرائیل معاملے پر ان کا علم اتنا کہ اس میں جذباتیت کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ العاصفہ اور حبس اس کی بہترین مثالیں۔
سندھ دھرتی سے اپنی جڑت کا وہ بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ دھنی بخش کے بیٹے اس تعلق کی مثال۔
یہ بدقسمتی ہے کہ اس باکمال ادیب کا یوں چرچا نہیں ہوا، جیسے ایک نابغہ روزگار شخصیت کا ہونا چاہیے۔ میلوں ٹھیلوں میں، کانفرنسوں میں اس نفیس، دھیمے مزاج کے حامل، دانش ورانہ ڈھب لیے ہوئے فکشن نگار پر نشستیں اور سیشن ہونے چاہییں۔
اگر ادب لکھنے پر کوئی تمغہ ہو، تو وہ حسن منظر ہی پر جچتا ہے۔
اردو ناول کا تذکرہ، حسن منظر کے بغیر ادھورا ہے۔