برلن: ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ اگر بچوں پر ضرورت سے زائد سختی کی جائے تو ان کا ڈی این اے متاثر ہوتا ہے، جس سے وہ لڑکپن اور جوانی میں ڈپریشن کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
اس طرح والدین کی سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے ان میں ایپی جنیٹکس تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور حیاتیاتی طور پر ان میں ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ البتہ اس کے اثرات بلوغت میں ہی نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا منفی اثر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت احساسِ تحفظ اور محبت کے ساتھ کی جائے تاکہ ان کی شخصیت توازن سے ہمکنار ہوسکے۔
یہ تحقیق اب جرمنی کی یونیورسٹی آف میونسٹر کی پروفیسر ایولِن وان ایشے نے کی ہے جو تحقیق کے وقت بیلجیئم کی جامعہ لیوون سے وابستہ تھیں۔ اس کی تفصیل یورپی کالج آف نیوروسائیکولوجی فارماکولوجی کی کانفرنس میں پیش کی گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو مارنے اور ان پر چیخنے چلانے کا عمل جین پڑھنے کے قدرتی عمل کو متاثر کرسکتا ہے اور یوں بچے کی مجموعی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
اگرچہ اس مطالعے میں بہت کم افراد شامل ہیں لیکن ان کی شماریاتی اہمیت اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس میں 21 نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کو لیا گیا جنہیں والدین نے بہترین ماحول میں پروان چڑھایا تھا اور نرمی سے تربیت کی تھی۔ پھر 23 لڑکے لڑکیوں سے ان کا موازنہ کیا گیا جو اسی عمر کے تھے اور بچپن میں والدین کی پٹائی، سختی اور بے رخی جھیل چکے تھے۔ ان کی اوسط عمر 12 سے 16 برس تھی۔
پھر ماہرین نے شامل تمام افراد کا ڈی این اے پرکھا جس میں ڈی این اے کے ساڑھے چار لاکھ مقامات پر میتھائیلیشن کا جائزہ لیا گیا۔ میتھائلیشن ایک قدرتی عمل ہے جس میں کیمیائی اجزا کے چھوٹے ٹکڑے ڈی این اے سے منسلک ہوجاتے ہیں اور ان کی ہدایات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر یہ عمل بڑھ جائے تو انسان ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔
اب جن بچوں کی تربیت سخت ترین ماحول میں ہوئی تھی، ان کے ڈی این اے میں تبدیلی کی شرح بلند تھی اور جائزے کے بعد اس کے آثار ان کی نفسیات میں بھی دیکھے گئے۔