کراچی: ہیبٹ سٹی کراچی میں دسواں ادب فیسٹیول ادب، ثقافتی اظہار اور فنکارانہ ورثے کی رنگارنگ نمائش کے ساتھ شروع ہوا، جس نے شہر بھر سے ادیبوں، مفکرین، طلبہ اور کتابوں کے شوقین افراد کو ایک دن کے متحرک اور فکر انگیز سیشنز اور پرفارمنسز کے لیے جمع کرلیا۔
فیسٹیول کا آغاز باقاعدہ افتتاحی تقریب سے ہوا، جس کی صدارت زہرہ نگاہ نے کی جب کہ پومی امینہ گوہر نے ایم سی کے فرائض سرانجام دیے۔ مہمانوں کا استقبال روٹس ملینیئم اسکول کے طلبہ کی جانب سے پیش کیے گئے قومی ترانے سے کیا گیا، جس کے بعد ادب فیسٹ کی بانی و ڈائریکٹر امینہ سید او بی ای، ستارہِ امتیاز، شیویلیئر دی لاردردیز آرٹ ای لیتر اور مونس عبداللہ (سی ای او، آئی بی ایل گروپ اور وینیو پارٹنر) نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔
تقریب میں 2025 انفاق فاونڈیشن: ادب فیسٹیول لٹریری ایوارڈز (سندھی، اردو اور انگریزی) کا اعلان بھی کیا گیا، جن میں پاکستان بھر میں کی جانے والی نمایاں ادبی خدمات کا اعتراف کیا گیا، بعدازاں کشور ناہید، ڈاکٹر عشرت حسین اور شاندانہ منہاس نے بصیرت افروز تقاریر کیں۔
ادب فیسٹیول کے ایک جذباتی سیگمنٹ ”تم یاد آئے: اِن میمورم (2020–2025)“ میں اس دوران وفات پانے والے ممتاز پاکستانی مفکرین اور فنکاروں بشمول عارفہ سیدہ زہرہ، نزہت قدوائی، زبیدہ مصطفیٰ، عامر عزیز سید، خالد احمد، طلعت حسین، محمد قوی خان، ضیا محی الدین، شعیب و ہمیر ہاشمی، امجد اسلام امجد، شکیل، عمران اسلم، نیرہ نور، امداد حسینی، سعید حسن خان، شہرزاد عالم، حسینہ معین، نائلہ جعفری، سہیل لاری، آئی اے رحمٰن، یاسمین طاہر، باپسی سدھوا، فوزیہ سلمان، ہانیہ اسلم، کرامت علی، بابر ایاز، سلطان ارشد خان، خالد سعید بٹ، روشن آراء بخاری، حوریہ یونس خان، پپّو سائیں، انور اقبال، فرہاد ہمایوں، فاروق قیصر، استاد مبارک علی خان، محمد علی سدپارہ، عرفان حسین اور آصف فرخی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر شیما سید نے نیرہ نور کی گائی ہوئی ناصر کاظمی کی غزل کو پیش کیا، جن کے ساتھ ثمرین ہیریسن نے سیلو/ وائلن پر سنگت کی۔ بعدازاں اسامہ اسرار احمد نے ٹینا ثانی کی معروف دُھن میں”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” پیش کیا، دونوں گیت ارشد محمود کی کمپوزیشن تھے۔
پورا دن مختلف اور خیال انگیز سیشنز کے ساتھ گزرا، جن میں بیک وقت کئی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ان میں اردو ادب، ترقی پسند سیاست، ثقافتی ورثہ، فنونِ لطیفہ، تاریخ اور تعلیم جیسے اہم شعبے شامل تھے۔
بچوں کے لیے اس بار پورا دن خاصا پُررونق رہا۔ کتاب اور کرافٹ فیئر سے لے کر چلڈرن لٹریچر اسٹرینڈ تک، ہر جگہ سرگرمیاں جاری تھیں۔ ٹیلنٹ شو، یاسمین معتصم کی کہانی گوئی، مہرین کامران کا پپٹ تھیٹر، امینہ سید کے ساتھ کتاب سازی کے سیشن اور عاطف بدر کی زیرِ نگرانی تھیٹر سرگرمیاں، ہر عمر اور ہر ذوق کے بچوں کے لیے دلچسپی کا کوئی نہ کوئی سامان موجود تھا۔
نوجوانوں کے لیے تخلیقی تحریر کی خصوصی ورکشاپ “اسٹوری میکرز اسٹوڈیو” بھی بہت مقبول رہی، جسے طٰہ کہار نے نہایت خوبصورتی سے منعقد کیا۔
دن کے پہلے مکالماتی سیشن میں زہرہ نگاہ اور شعیب ارشد کے درمیان "جو سن سکو تو یہ سب داستاں تمہاری ہے: ادب کے بدلتے چہرے اور ہم” کے عنوان سے تبادلہ خیال ہوا، جس میں اردو ادب کے ارتقاء اور اس کے سماجی تبدیلی سے تعلق پر بات ہوئی۔ اسی دوران "زاہد حسین: اے ڈائیلاگ ود ہسٹری اینڈ فیس ٹو فیس ود بینظیر” پر ایک کتابی نشست ہوئی، جس میں ڈاکٹر عمیر احمد خان اور ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے مصنف کے ساتھ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گفتگو کی۔
اگلا سیشن "پاکستان میں ترقی پسند ادب اور سیاست کا ارتقاء اور زوال” کے موضوع پر تھا، جس میں ڈاکٹر نظیر محمود اور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ایک مقبول سیشن ”کنیکٹنگ آرٹ، دی سٹی اینڈ اٹس پیپلز“ پر ایک تنقیدی نشست عمل میں آئی، جس کے شرکاء میں نور احمد، امین گل جی اور بشریٰ حسین شامل تھے۔ اس سیشن کی نظامت سید حسنین نواب نے کی۔ اس موقع پر شہری شعور کی تشکیل میں آرٹ کے کردار کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد کراچی بینالے کی جانب سے فلم میکنگ ورکشاپ میں شریک مختلف اسکولوں کے طلبہ کی بنائی ہوئی پانچ ڈاکومینٹری فلموں کی اسکریننگ کی گئی۔
اسی دوران ایک متوازی سیشن "دی کلچرل ریلیشن شپ آف سندھ ود دی ریور اینڈ سی” منعقد ہوا، جس میں سیف سمیجو، نصیر میمن اور زبیدہ بھرونائی شریک تھے جب کہ نظامت نورالہدیٰ شاہ نے کی۔ اس سیشن میں سندھ کی شناخت پر اس کے جغرافیائی اثرات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
فیسٹیول میں کتابوں سے متعلق کئی دلچسپ نشستیں بھی شامل تھیں۔ "مائی فرینڈ مایا” کی مصنفہ امبر ظفر خان کے ساتھ خرم قریشی نے گفتگو کی۔ اس کے بعد شبر زیدی کی کتاب "32اونکار روڈ” پر سلیم رضا نے مصنف کے ساتھ پاکستان کی سیاسی و معاشی پیچیدگیوں پر بات کی۔ اسی وقت سید محمد تقی کی کتاب "دی فیوچر آف سیولائزیشن” (جسے انگریزی میں سمیرا نقوی نے ترجمہ کیا) پر ظفر مسعود اور کاظم سعید کے درمیان لبنیٰ جرار نقوی کی نظامت میں دلچسپ گفتگو ہوئی۔
بعدازاں شرکاء نے "ہیر: آج کی عورت، وارث شاہ کے شاہکار کا جشن” کے عنوان سے ثروت محی الدین کی گفتگو اور اسامہ اسرار احمد کے روح پرور گیت سے لطف اٹھایا۔ اسی دوران زبیدہ مصطفیٰ کی کتاب "چیٹنگ ود دادی” کی تقریبِ رونمائی ہوئی، جسے اسماء مندرا والا اور شمع عسکری نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ اس کے بعد شمع عسکری، امینہ سید، بیلا رضا جمیل اور رومانہ حسین نے شازیہ حسن کی نظامت میں گفتگو کی۔
علاوہ ازیں شمع عسکری کے انگریزی ترجمے” کوئن زارقا، آ ٹرانس جینڈرز اوڈی سی” (اصل پشتو از: حیات روغانئی) کی رونمائی بھی ہوئی، جس میں نیشا اور نائلہ محمود شریک تھیں جب کہ حوری نورانی نے نظامت کی۔
اسی دوران فرحت اللہ بابر کی کتاب "بیونڈ دی بم: منیر احمد اینڈ پاکستان او ڈی سی” کی لانچ ہوئی، جس میں مظہر عباس، امینہ سید اور اعزاز سید نے مصنف کے ساتھ گفتگو کی اور عمیر عزیز سید نے نظامت کی۔ اس سیشن کا اختتام آئرہ کے گائے ہوئے خوبصورت گیت "وطن کی مٹی گواہ رہنا” پر ہوا۔
شام کے سیشنز میں مستقبل کی گفتگو، ابلاغ اور سیکھنے کے موضوعات زیرِ بحث آئے۔ ایک اہم نشست “ٹرتھ، ٹرم اینڈ ٹینسسٹی، دی نیو میڈیا پیراڈیجم“ کے عنوان سے منعقد ہوئی، معروف صحافی فاضل جمیلی، امبر رحیم شمسی، اظہر عباس اور اعزاز سید نے نادیہ نقی کی نظامت میں ڈیجیٹل میڈیا میں عوامی اعتماد کے بحران پر بات کی۔ اسی دوران "بیکم دی ماسٹرز آف ایور اوون سٹی، وائی پاکستان مسٹ اسٹاف آؤٹ سورسنگ اٹس فیوچر” پر ممتاز کینیڈین کاروباری شخصیت سید نوید حسین نے اظہار خیال کیا، جنہیں حاضرین سے راحیلہ بقائی نے متعارف کرایا۔
اسی موضوع پر اعلیٰ تعلیم کے ماہرین ڈاکٹر محمد علی شیخ، طالب کریم، ڈاکٹر انجم ہلالی اور ڈاکٹر ہما بقائی نے ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نظامت میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا۔
سیشن کے حصے کے طور پر ایک کثیر لسانی مشاعرہ "پاکستان کی زبانیں” کا اہتمام گیا تھا، جس میں سعدیہ لاشاری (سرائیکی)، اسحاق خاموش (بلوچی)، مسرور پیرزادہ (سندھی)، شوکت کمال چیمہ (پنجابی)، سرور شمال (پشتو)، علی احمد جان (بروشسکی) اور قمر کاظمی (بلتی) شریک ہوئے۔ اس سیشن کی نظامت وحید نور نے کی۔ اس سیشن نے بڑی تعداد میں حاضرین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
دن کا اختتام عثمان اسرار احمد کے “ٹریبیوٹ ان ترنم ٹو ٹینا ثانی اور نیرہ نور“ اور ان کی گائی ہوئی غزلوں کے ساتھ کیا گیا۔ اسی وقت ایک مشاعرہ بھی ہوا جس کی صدارت زہرہ نگاہ کررہی تھیں جب کہ دیگر میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی اور انور شعور شامل تھے۔ مشاعرے کی نظامت ناصرہ زبیری نے کی جب کہ معروف شعراء افضال احمد سید، تنویر انجم، خالد معین، کاشف حسین، غیار، وحید نور، فاضل جمیلی، انعام ندیم، کاشف رضا، وجیہ ثانی، ڈاکٹر مانا، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور کشور ناہید نے اپنا کلام پیش کیا۔
آصف فرّخی کے ساتھ مل کر قائم کیے گئے اس فیسٹیول کے دسویں ایڈیشن نے مکالمے، تخلیقی اظہار اور ثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کے اپنے مشن کو ایک بار پھر جاری رکھا۔ فیسٹیول اتوار، 23 نومبر 2025 کو ہیبٹ سٹی میں دوسرے دن کے پروگرام کے ساتھ جاری رہے گا۔