یہ کراچی یونیورسٹی میں ہمارے ماسٹرز فائنل ائیر کے آخری سمسٹر کی بات ہے۔ پوری کلاس میں سکوت طاری تھا۔ ایسے میں پروفیسر صاحب نے پوچھا، "مونا لیزا کی شہرہ آفاق پینٹنگ کس نے بنائی تھی؟” پوری کلاس گونج اٹھی، "لیونارڈو ڈا ونچی نے۔” انہوں نے اگلا سوال داغ دیا، "اور میرا نام کیا ہے؟” یہ سوال سن کر پوری کلاس کو سانپ سونگھ گیا، کوئی نام نہ بتاسکا۔ چند ایک کو پتہ تھا، وہ مسکراتے ہوئے خاموش رہے۔ پروفیسر صاحب ڈائس سے ہٹے اور میز کے ساتھ کرسی پر جابیٹھے۔
میں ان کی طرف دیکھ کر ہنسا، وہ بالکل نہ ہنسے۔ بے تاثر چہرے کے ساتھ کچھ بھی نہ بولے۔ کلاس کے بعد میں نے ان سے نام پوچھنے کی وجہ پوچھی تو بولے، "مجھے بھی طلبہ کے نام یاد کب رہتے ہیں۔” میں ان کی بات سن کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔۔ ایسا معصومانہ جواز کیسے پیش کیاجاسکتا ہے۔ یہ احمد نسیم سندیلوی صاحب تھے۔ مرنجا مرنج، نفیس، خوش طبع اوردیگر بے شمار شخصی اوصاف لیے سندیلوی صاحب کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے! ایک پرانی سی کار میں، کوٹ پینٹ پہنے، ایک پرانا سا بریف کیس اٹھائے آتےتھے۔ بریف کیس میں کتابیں، پانی کی بوتل، نوٹس اور بسکٹس رکھے ہوتےتھے۔ فارغ ہوں تو اسٹاف روم میں بیٹھے بریف کیس کھولے نہ جانے کہاں کھوجاتےتھے۔
سندیلوی صاحب کی تدریس کا انداز بڑا نرالا تھا۔ انتہائی جامع طریقے سے موضوع کا احاطہ ان کی انفرادیت تھی۔ زوائد اور موضوع سے متعلق مگر غیر ضروری چیزوں سے احتراز کرتے ہوئے لیکچر دیتے۔ ایک بات یا ایک مثال کئی بار دہراتے تھے۔۔ کم مگر خوب سمجھا بجھا کر بیان کرتےتھے۔۔ نفیس، باوقار اور دھیمے انداز میں ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ چہرے پر بغیر کوئی تاثر لائے ازراہ تفنن کوئی بات کہتے تو اکثر طلبا کے چہرے بجھے کے بجھے رہتے۔ سندیلوی صاحب نے بھرپور زندگی گزاری۔ کیا کچھ نہیں کیا۔ کئی بڑے اخبارات کے سائنسی صفحات کے انچارج رہے۔ ڈان، دی نیشن، اخبار جہاں جیسے تقریبا تمام ہی بڑے اخبارات و جرائد میں سائنسی مضامین لکھتے رہے۔ شہرہء آفاق”سائنس ڈائجسٹ”کے ایڈیٹوریل بورڈ میں رہے، بچوں کیلئے سائنسی کہانیاں لکھیں، بڑوں کیلئے "سائنسی حقیقتیں اور فسانے” کے نام سے کتاب لکھی، اخبار اور ریڈیو کے موضوعات پر کتابیں ترتیب دیں۔ پی سی ایس آئی آر میں عشرہ گزارا، سپارکو میں جنرل منیجر رہے، جناح یونیورسٹی فار ویمن میں صدر شعبہ کی حیثیت سے منسلک رہے، کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں پڑھاتے رہے۔
مجھے آج بھی وہ شام کبھی نہیں بھولتی۔ ماسٹرز ختم ہوئے عرصہ بیت گیا تھا۔ یہی کوئی مارچ کا خوشگوار دن تھا۔ بیٹھے بٹھائے ان کو فون کیا۔ دوسری جانب ان کی آواز سنتے ہی بول پڑا، "سر، آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔” وہ ہنسے اور بولے، "ہمیں بھی آپ لوگ بہت یاد آتے ہیں۔” پھر کہا، "کبھی فرصت ہوتو آجائیے ملنے کیلئے۔” میں اسی شام پی سی ایس آئی آر سوسائٹی پہنچ گیا۔ گھنٹی بجائی، کوئی نہ نکلا۔۔ فون کیا تو کال کاٹ دی۔ میں نے یہی سوچا کہ گھر پر کوئی نہیں ہوگا، باہر کہیں سے آرہے ہوں گے۔ میں اسی دوران وہیں بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگ گیا۔ بہت دیر بعد میری ان کے مکان کی اوپری منزل پر نظر پڑی تو میں ٹھٹک کر رہ گیا۔ سندیلوی صاحب بڑے تحمل سے مجھے دیکھے جارہے تھے۔ کہنے لگے، "دروازہ کھلا ہے، اوپر آجائیے۔” میں شرمندہ شرمندہ سا اوپر پہنچا۔ معذرت کرنا چاہی تو بولے، "آپ اتنے محو تھے کہ آپ کی توجہ ہٹانا مناسب نہ سمجھا۔” میں اور شرمندہ ہوگیا۔ بات چل نکلی تو بتایا کہ آپ لوگوں کے بیچ کےبعد یونیورسٹی میں پڑھانے کا سلسلہ بھی ختم ہوکر رہ گیا۔ اس روز ان سے خوب گپ شپ ہوئی۔ وہ میری اردو سے دلچسپی اور پڑھنے لکھنے کے مشاغل کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اپنی کتابوں سے بھی نوازتے رہے۔ یہ سوچ کر ہی دل بوجھل ہوجاتا ہے کہ سندیلوی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی ایک ایک بات رہ رہ کر یاد آرہی ہے۔ کیا شفیق اور مہربان انسان تھے۔ ایسے نرم خو اساتذہ اب کہاں؟ آخری ملاقات کو بیتے سال ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا۔ اس دوران اکثر ملنے کا پروگرام بناتا تھا اور بس بناتا ہی رہ جاتا تھا۔ آج یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آجاتی ہے کہ جتنے بھی منصوبے بنالوں، اب کبھی بھی نہیں ملنے والے۔ اکثر وہ کہا کرتے تھے کہ سینکڑوں شاگردوں کے نام یاد نہیں۔ کئیوں سے شناسائی ہی نہ رہی۔ یہ میرے لیے بجاطور ر فخر و امتنان کا باعث ہے کہ وہ مجھے اپنے پندرہ سالہ تدریسی زندگی کے ان لوگوں میں شمارکرتے تھے، جنہیں وہ بخوبی جانتے اور پہچانتےتھے۔ اور یہی کچھ انہوں نے میری ڈائری میں لکھا۔ یہ میرے محبوب استاد کی خوشگوار نشانی ہے۔ یہ میرے لیے کسی گراں قدر سرمائے سے کم ہرگز نہیں۔ دعا ہے مولائے کریم ان کی روح کو سکون، اطمینان اور راحت نصیب کرے۔ ان کو اپنے خاص بندوں میں شمار کرے اور اگلے جہاں میں بھی اپنی خاص رحمتوں کے حصار میں رکھے۔