تبصرہ:عروج ندیم
مصنف کا تعارف:
خدائے بزرگ و برتر دین کی خدمت کے لیے جن کا انتخاب فرماتا ہے، انہیں ایسی صلاحیتوں سے نوازتا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ آج جس شخصیت کا تعارف پیش کیا جارہا ہے وہ ہیں مشہور محقق اور اہل قلم ڈاکٹر حمیداللہ۔ انہوں نے مختصر عرصے میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان کی تصانیف اور تحقیقات سے آج بھی لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن، ترکی، اطالوی، فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھنے والی اس شخصیت نے ان تمام ہی زبانوں میں مضامین اور کتابیں لکھیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ 1938 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں شعبہ دینیات کے استاذ بنے۔ 1946 میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ سفیر مقرر ہوئے۔ 1952 سے 1978 تک ترکی کی مختلف جامعات میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔ 20 سال سے زائد عرصہ فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے۔ 1985 میں آپ کو پاکستان نے اعلیٰ ترین شہری اعزاز “ہلال امتیاز” سے نوازا۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی تمام رقم ایک کروڑ روپیہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارے تحقیقات اسلامی کو عطیہ کردی۔ اس جامعہ کا کتب خانہ انہی کے نام سے موسوم ہے۔
آپ کی شہرہ آفاق تصنیف “تعارف اسلام” کا دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ پہلے قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ اور تفسیر بھی مرتب کی، جس کے مطالعے سے کئی فرانسیسی اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ احادیث کی اولین کتابوں میں شامل صحیفہ ہمام کی دریافت 1300 سال بعد جرمن کی برلن لائبریری سے کرکے اسے شائع کروایا۔ ان کے مقالوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جب کہ ان کی تصانیف، تالیفات، ترجموں اور نظرثانی کتابوں، کتابچوں اور رسالوں کی تعداد 164 کے قریب بنتی ہے۔ داعئ اسلام ان کی سب سے زیادہ عالمی شہرت یافتہ کتاب ہے جب کہ خطبات بہاولپور 1980 میں بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں دیے گئے لیکچرز کا مجموعہ ہے، جس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے۔
19 فروری 1908 کو مملکت آصفیہ کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والی یہ عظیم مصنف 17 دسمبر 2002 کو 94 سال کی عمر میں امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ویل میں انتقال کر گئے۔
کتاب کی طباعت:368 صفحات پر مشتمل کتاب ”رسول اللہ ﷺ کی سیاسی زندگی” پہلی مرتبہ 1950 میں شائع ہوئی تھی اور پھر 1977 تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو کر بے حد مقبول ہوئے ہیں، لیکن سابقہ ایڈیشن میں کچھ طباعتی غلطیاں رہ گئی تھیں جو اس جدید ایڈیشن 2003 میں حتیٰ الامکان دُور کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ اس کتاب کی اشاعت دارالاشاعت نے کی ہے۔
وجہ انتخاب:
اس کتاب کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ویسے تو سیرت طیبہ ﷺ پر بہت سی کتابیں ہمارے اکابر آئمہ نے لکھی ہیں، جنہیں امہات الکتب کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر سیرت ابن ہشام، سیرتِ یعقوبی، البدایہ والنہایہ۔ ان میں رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے کئی پہلو ملتے ہیں، لیکن ان کا سیاسی پہلو بکھرا ہوا ہے اور اگر کہیں کسی نے اسے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے تو اس میں تشنگی پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے جتنے بھی سیاسی پہلو تھے، ان کو یکجا کردیا اور ان کی اس تصنیف سے ان کے عمیق مطالعہ، تحقیقی انداز اور علمی بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔
تحقیقی و تنقیدی جائزہ:
قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو سارے مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ اور ہر طرح قابل تقلید نمونہ قرار دیا ہے۔ یہ نمونہ خارقِ عادات طریق کار کے متعلق نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ڈاکٹر حمیداللہ نے سیرت رسول ﷺ کے انہی پہلوؤں پر زور دیا ہے جو عالم اسباب کے لیے مناسب اور ہر انسان کے لیے قابل عمل ہو۔ آپ ﷺ نے دس سال کے قلیل عرصے میں جزیرہ نمائے عرب کے نراج (لا حکومتی) میں جہاں زیادہ تر خود سرخانہ بدوش قبائل میں خانہ جنگیاں ہی رہا کرتی تھیں، ایک مستحکم اور بڑی مملکت قائم کردی۔ بحیثیت سپہ سالار کے آپ کی لڑائیوں میں فریقین کے بمشکل چند سو افراد مارے گئے لیکن دس سال کے عرصے میں 12 لاکھ مربع میل کا رقبہ مطیع اور ماتحت ہوگیا اور عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت قائم ہوئی جو پورے جزیرہ نما کو حلقہ بگوش بناسکی اور یہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ عرب جیسی گم نام اور جاہل قوم نے بین الممالک تعلقات میں پہلا قدم رکھا۔ ساتھ ہی فتوحات کی وسعت اور گہرائی کا جو ریکارڈ انہوں نے قائم کیا ہے وہ اب تک کسی سے توڑا نہیں جاسکا، چنانچہ دس ہی سال میں انہوں نے عراق، ایران، فلسطین، شام، مصر، طرابلس، تیونس، ترکستان، آرمینیا اور مغربی سندھ و ہند کو زیر کرلیا۔ یہ سب علاقے آج بھی ٹھوس اسلامی علاقے ہیں اور ان میں سے اکثر کی زبان تک عربی ہے۔
اس کتاب پر تنقید کرنا آسان کام نہیں، کیونکہ اس کتاب کے مؤلف مشہور محقق اور اہل قلم ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب ہیں اور ایسی بڑی علمی شخصیت کی کتاب پر تنقید کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ صرف چند باتیں تنقید کے طور پر ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
مؤلف نے اس کتاب کو ابواب و فصول کے اندر ترتیب نہیں دیا۔ اگر ابواب وفصول کا اضافہ ہوجاتا تو وہ ایک عام پڑھنے والے کے لیے آسانی کا سبب بن جاتا۔ اس کے علاوہ ایک کمی ہمیں یہ بھی نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے سیاسی پہلو تو بیان کردیے لیکن ان کی عصر حاضر سے تطبیق نہیں کی۔ اگر یہ عصر حاضر سے اس کی تطبیق کردیتے تو وہ سودمند ثابت ہوتا۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ جِسے عہد نبوی کی سیاست خارجہ کا شاہکار کہا جاتا ہے، اس سے ہمیں کیا سیاسی اصول سمجھ آتا ہے اور آج ہم اسے کیسے نافذ کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کتاب کی ابتدا میں تو سادہ زبان استعمال کی گئی ہے، لیکن آگے جاکر بعض عنوانات میں بہت مشکل ترین الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے، جو عوامی لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہے، البتہ علمی و ادبی شخصیت کو اس دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جس طرح آغاز میں سادگی کو اپنایا گیا ہے، اگر اسی سادگی کو آگے برقرار رکھا جاتا تو یہ عوام کی دسترس میں پڑھنے کے لیے ایک مفید کتاب ہوتی۔