انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈفورڈ، انگلینڈ)
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو خاموشی سے اپنی جگہ بنالیتی ہیں اور پھر ان کی جدائی ایک خلا چھوڑ جاتی ہے جو مدتوں محسوس ہوتا رہتا ہے۔ غلام حیدر شیخ بھی انہی شخصیات میں شامل تھے، جن کا وجود لفظوں، اخلاق اور کردار کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غلام حیدر شیخ نہایت خوش اخلاق، شفیق اور ملنسار انسان تھے۔ ان کی گفتگو میں نرمی، لہجے میں وقار اور انداز میں شائستگی نمایاں ہوتی تھی۔ وہ اختلافِ رائے کو بھی تحمل اور احترام کے ساتھ قبول کرتے تھے، جو آج کے دور میں ایک نایاب وصف بن چکا ہے۔ ان کی شخصیت محض ایک لکھاری کی نہیں بلکہ ایک سچے انسان کی عکاس تھی۔
بطور لکھاری غلام حیدر شیخ کا اپنا ایک منفرد اسلوب تھا۔ وہ لفظوں کو صرف جوڑتے نہیں تھے بلکہ ان میں احساس، درد اور فکر بھی سمو دیتے تھے۔ ان کی تحریروں میں سچائی کی خوشبو اور معاشرتی شعور کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ قلم کو ذمے داری سمجھ کر استعمال کرتے تھے، نہ کہ محض شہرت یا داد کے لیے۔
ان کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع تھا۔ وہ تاریخ، سماج، اخلاقیات اور انسانی رویّوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کے مضامین اور تحریریں قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتی تھیں اور اکثر ایک نئے زاویے سے حقیقت کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قارئین ان سے فکری وابستگی محسوس کرتے تھے۔
میرا غلام حیدر شیخ سے تعلق ذاتی ملاقات کا نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود ایک قربت اور اپنائیت کا احساس ہمیشہ موجود رہا۔ پہلی بار ان سے ای میل کے ذریعے رابطہ ہوا، جس پر انہوں نے نہایت خوش دلی اور توجہ سے جواب دیا۔ یہی پہلا تاثر ان کی اعلیٰ ظرفی اور عاجزی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔
اس ابتدائی رابطے کے بعد ہمارا تعلق واٹس ایپ اور فون کالز کے ذریعے مضبوط ہوتا چلا گیا۔ وہ ہر پیغام کا جواب توجہ سے دیتے، خیریت دریافت کرتے اور گفتگو کو بامقصد رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان کا انداز یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ تعلقات کو نبھانا جانتے تھے اور لوگوں کو اہمیت دینا ان کی فطرت میں شامل تھا۔
بدقسمتی سے جب غلام حیدر شیخ برطانیہ تشریف لائے تو ہماری ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ وقت اور حالات نے یہ موقع نہ دیا، جو آج ایک حسرت بن کر دل میں رہ گیا ہے۔ بعد ازاں جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ واپس جا چکے ہیں، مگر ان کا یہ جملہ کہ “ان شاء اللہ رابطہ قائم رہے گا” آج بھی یادوں میں گونجتا ہے۔
ان کی زندگی سادگی، وقار اور مقصدیت کا حسین امتزاج تھی۔ وہ خود نمائی سے دور رہتے تھے اور خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ یہی خاموش خدمت اور بے لوث رویہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ وہ کم بولتے تھے مگر جب بولتے تو بات دل میں اتر جاتی تھی۔
غلام حیدر شیخ کی تحریروں میں اخلاقی اقدار کا گہرا عکس نظر آتا تھا۔ وہ معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی ضرور کرتے تھے مگر مایوسی نہیں پھیلاتے تھے۔ ان کا انداز اصلاحی تھا، تنقیدی ضرور مگر تلخ نہیں۔ وہ قلم کو زخم دینے کے بجائے مرہم بنانے کے قائل تھے۔
ان کی وفات صرف ایک فرد کی جدائی نہیں بلکہ ایک فکری نقصان بھی ہے۔ ایسے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں جو علم اور اخلاق کو یکجا کر سکیں۔ غلام حیدر شیخ صاحب نے اپنی زندگی میں یہ ثابت کیا کہ علم اگر کردار سے جڑ جائے تو وہ معاشرے کے لیے روشنی بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فانی بنایا ہے اور موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: “ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔” یہ آیت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی ہے۔
غلام حیدر شیخ کی زندگی اس بات کی گواہ تھی کہ وہ اپنی آخرت کی بھی فکر رکھتے تھے۔ ان کا طرزِ عمل، ان کی گفتگو اور ان کی تحریریں ایک ذمہ دار مسلمان اور باشعور انسان کی عکاسی کرتی تھیں۔ وہ دین اور دنیا کے توازن کو سمجھتے تھے اور اسی توازن کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔
رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے: “جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔” غلام حیدر شیخ کا علم اور ان کی تحریریں یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
ان کے چاہنے والوں اور قارئین کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کے کام کو آگے بڑھائیں، ان کی فکر کو زندہ رکھیں اور ان کے چھوڑے ہوئے پیغام کو پھیلائیں۔ یہی کسی بھی لکھاری کے لیے سب سے بڑا خراجِ عقیدت ہوتا ہے۔
غلام حیدر شیخ کے اہلِ خانہ کے لیے یہ لمحہ نہایت کٹھن ہے۔ والد کا سایہ اٹھ جانا ایسا دکھ ہے جس کا مداوا وقت کے سوا کچھ نہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے باکردار والدین اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ ایک زندہ مثال بن کر رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے صاحبزادگان اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور انہیں اپنے والدِ محترم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ ان کے اخلاق، ان کی اقدار اور ان کی خدمت کے جذبے کو آگے بڑھانا ہی اصل وراثت ہے۔
غلام حیدر شیخ نے اپنی زندگی میں جو بیج بوئے، وہ آنے والے وقت میں ثمر آور ہوں گے۔ ان کے الفاظ، ان کے خیالات اور ان کی دعائیں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ایسی شخصیات کا بچھڑ جانا ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے وقت اور صلاحیتوں کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ زندگی مختصر ہے مگر اس میں کیے گئے کام انسان کو ہمیشہ کے لیے امر کر سکتے ہیں۔
ان کی یاد، ان کا نام اور ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہ اپنے پیچھے ایک ایسی روشن مثال چھوڑ گئے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ غلام حیدر شیخ کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔