صالحہ پگلی اور بونیر کے فقیر کی سبق آموز کہانی

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈفورڈ، انگلینڈ)

دنیا میں کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ بھولتی نہیں بلکہ اور گہری ہوتی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ہے صالحہ بیگم کی، جنہیں لوگ محبت سے “صالحہ پگلی” کے نام سے جانتے تھے۔ وہ بنگلادیش کے ضلع سراج گنج کے علاقے مسمپور کالونی میں رہتی تھیں۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے شوہر مرحوم عبدالسلام ایک معمولی مزدور تھے، جو کئی سال پہلے وفات پاگئے۔ شوہر کے بعد صالحہ کی زندگی اکیلے پن، غربت اور محرومی میں گزری۔ چالیس برس تک وہ سراج گنج کی گلیوں، بازاروں اور مسجدوں کے باہر بھیک مانگتی رہیں۔ لوگ انہیں “پگلی” کہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جب ان کی حقیقت کھلی، تو سب حیران رہ گئے۔ 9 اکتوبر کو مقامی لوگوں نے ایک پرانے سرکاری خالی کوارٹر سے دو تھیلے برآمد کیے اور 11 اکتوبر کو ایک اور تھیلا ملا۔ ان میں ایک لاکھ چوہتر ہزار اسی ٹکے کی رقم موجود تھی، وہی پیسے جو صالحہ بیگم نے چالیس سال کی فقیری میں جمع کیے تھے۔ وہ ساری زندگی فقیری میں رہیں، مگر ایک پیسہ خرچ نہ کیا۔ انہیں جب بیماری نے آ لیا تو لوگوں نے ان کی مدد کی، اسپتال پہنچایا، مگر وہ بچ نہ سکیں۔ وہ شہید ضیاء الرحمٰن میڈیکل کالج اسپتال، بگورا (Bogura) میں جگر کے سرطان کے علاج کے دوران انتقال کرگئیں۔ صالحہ کی کہانی ایک آئینہ ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دولت جمع کرنے سے زندگی نہیں بنتی، بلکہ جینے سے بنتی ہے۔
یہی سوچ میرے ذہن میں اُس وقت آئی جب میں نے اپنے گاؤں، بونیر (پاکستان) کے ایک معذور فقیر کو یاد کیا۔ وہ اکثر سوات اور بونیر کے پہاڑی راستوں کے بیچ کسی سڑک کے کنارے لیٹا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی اس کے ساتھ ایک عورت، شاید بیوی یا بیٹی بیٹھی ہوتی ہے۔ ان کے سامنے ایک پرانا گلاس رکھا ہوتا ہے، جس میں راہ چلتے لوگ چند سکے ڈال دیتے ہیں۔ میں نے اسے برسوں سے دیکھا ہے، کبھی بونیر کے مرکزی چوک پر، کبھی کسی بازار کے قریب۔ وہ دھوپ میں بھی ہوتا ہے، بارش میں بھی، یہ منظر ہمیشہ مجھے صالحہ پگلی کی یاد دلاتا ہے۔ ایک عورت جس نے ساری زندگی پیسہ جمع کیا مگر کبھی خرچ نہ کیا اور ایک فقیر، جو خالی ہاتھ ہے مگر صبر سے بھرپور۔ دونوں کی کہانیاں ایک ہی سبق دیتی ہیں، زندگی جمع کرنے کے لیے نہیں، جینے کے لیے ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ صالحہ کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ہم پیسہ جمع کرتے جاتے ہیں، مگر خود پر کچھ نہیں خرچ کرتے۔ پھر ایک دن چلے جاتے ہیں اور ہمارے جمع کیے ہوئے تھیلے، لاکروں اور بینک اکاؤنٹس میں پڑے رہ جاتے ہیں، بالکل صالحہ کے تھیلوں کی طرح۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو کچھ تم خرچ کروگے (اللہ کی راہ میں)، وہ تمہیں پورا لوٹا دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔” (سورۃ البقرہ 2:272)
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “انسان کا اصل مال وہی ہے جو اس نے کھایا، پہنا، یا صدقہ دیا۔ باقی تو دوسروں کے لیے چھوڑ گیا۔” (صحیح مسلم)
یہ دونوں پیغام، صالحہ بیگم اور بونیر کے اس معذور فقیر کے کردار سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں زندگی کی وہ سچائیاں دکھاتے ہیں جو اکثر ہم بھول جاتے ہیں۔ صالحہ کے پاس مال اور دولت تو بے پناہ تھی، لیکن وہ کبھی سکون سے نہیں جئیں، نہ اپنے لیے خوشی کا سامان کرسکیں، نہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ ان کے تھیلے، جو چالیس سال کی محنت کا نتیجہ تھے، زندگی میں ان کے سکون کا متبادل نہیں بن سکے۔ یہی ہمیں سکھاتا ہے کہ دولت کے پیچھے دوڑنا انسان کو خوش نہیں کرسکتا، اگر وہ اپنے دل اور اپنی زندگی میں سکون پیدا نہ کرے۔ جب میں بھی اپنے گاؤں کے اس فقیر کو دیکھتا ہوں، جسے ہم سب دھوپ، بارش اور سختی میں روزانہ سڑک کنارے بیٹھا دیکھتے ہیں، تو دل میں ایک عجیب سا احساس جاگتا ہے۔ ہم جسمانی طور پر تندرست ہیں، ہمیں صحت کی نعمت ملی ہے، مگر دل سے شاید ہم اس فقیر کے سامنے معذور ہیں۔ وہ شخص، جو جسم سے معذور ہے اور ہر دن کی محنت میں اپنی بقا کے لیے جیتا ہے، دل سے مضبوط اور شکر گزار ہے۔ اس کا صبر، اس کی خاموشی اور زندگی کے ساتھ اس کا رشتہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ حقیقی دولت مال میں نہیں، دل اور شکر میں ہے۔
زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ دولت ہمیشہ رہ جاتی ہے، وہ مال اور دولت جو ہم جمع کرتے ہیں، بینکوں میں، خانوں میں یا تھیلوں میں محفوظ کرتے ہیں، اکثر ہماری موت کے بعد کسی اور کے لیے رہ جاتی ہے۔ مگر زندگی وہ لمحے ہیں جو ہم جیتے ہیں، جو تجربات ہم نے کیے، جو درد اور خوشی ہم نے محسوس کی، وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ جو شخص واقعی جینا جانتا ہے، دل سے جیتا ہے، دوسروں کے دکھ محسوس کرتا ہے اور اپنی زندگی میں سکون اور محبت ڈالتا ہے، وہ کبھی غریب نہیں ہوتا، چاہے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
صالحہ پگلی بنگلادیش میں دفن ہوگئیں، ان کا جسم تو خاک میں ملادیا گیا، لیکن ان کی کہانی زندہ رہ گئی، سرحدوں، وقت اور نسلوں سے آگے نکل گئی۔ ان کی زندگی کی خاموش قربانی، صبر اور بچت کا سبق آج بھی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور بونیر کا وہ فقیر، جو آج بھی روزانہ سڑک کنارے بیٹھا ہے، ہمیں بغیر کسی الفاظ کے یہی سبق دے رہا ہے۔ وہ ہمیں یہ یاد دلارہا ہے کہ اصل دولت ہاتھ میں نہیں، بلکہ دل میں ہوتی ہے اور جو شخص دل سے مالا مال ہوتا ہے، وہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔

Buner ka FaqeerSaleha PagliThe instructive story