اسلام آباد/ کراچی: پاکستان میں تیل بطور خاص ڈیزل کے بحران کا اندیشہ زور پکڑنے لگا، حکومت نے بحران کو ٹالنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے 40 کروڑ ڈالر مالیت کے فنڈ کا تقاضا کردیا۔
پٹرول ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو ملک میں ڈیزل کے ذخائر دسمبر کے اواخر تک ختم ہوجائیں گے۔
دوسری جانب مرکزی بینک نے زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذخائر کے پیش نظر 40 کروڑ ڈالر مالیت کا فنڈ مختص کرنے یا تیل کی درآمدات کے لیے ایڈوانس ادائیگیاں کرنے سے معذوری ظاہر کردی ہے۔
پٹرولیم ڈویژن نے اسٹیٹ بینک سے یہ مدد اس وقت طلب کی، جب ملک کے دیوالیہ ہوجانے کی افواہوں اور کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی وجہ سے غیر ملکی بینکوں نے تیل کی درآمد کے لیے پاکستانی لیٹرز آف کریڈٹ پر 8 فیصد تک کنفرمیشن چارجز وصول کرنا شروع کردیے، حالانکہ اس کی نارمل شرح صرف 0.5 فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق تیل کے درآمدکنندگان کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے پٹرولیم ڈویژن اور اسٹیٹ بینک کے عہدیداروں کا رواں ہفتہ ہونے والا اجلاس بے نتیجہ رہا، کیونکہ زرمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر کے باعث اسٹیٹ بینک نے کوئی بھی سہولت فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کردی۔
خیال رہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی تیزی سے کم ہورہے ہیں اور گزشتہ ہفتے کے اختتام پر سرکاری ذخائر صرف 7.8 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں سیکریٹری پٹرولیم نے واضح کردیا کہ اگر درآمدات کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ سے متعلق مشکلات برقرار رہیں تو ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے بحران کو ٹالا نہیں جاسکے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو ملک میں ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور توانائی کے شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔ ایسی صورت میں ڈیزل کی سپلائی چین پر سب سے زیادہ دباؤ پڑے گا۔
اگرچہ ملکی پیداوار اور درآمدات رواں ماہ یعنی نومبر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن لیٹرز آف کریڈٹ کی کنفرمیشن میں مشکلات کے باعث اگلے ماہ کے نصف آخر میں ڈیزل کے ذخائر خشک ہوسکتے ہیں، جس کے باعث جنم لینے والی بے یقینی اور خوف بالآخر پوری معیشت کو لے ڈوبے گا۔
دھیان رہے کہ جولائی تا اکتوبر کی سہ ماہی میں تیل کی درآمدات بڑھ کر 7.6ارب ڈالر تک جا پہنچیں، جو اس عرصے کے دوران کی جانے والی کل درآمدات کا ایک تہائی بنتا ہے۔