کراچی: پاکستان کے چاروں صوبوں سے 20,000 سے زائد خواتین کمیونٹی ہیلتھ ورکرز پاکستان کمیونٹی ہیلتھ ورکرزفیڈریشن بنانے کے لیے متحد ہوگئیں۔
ملک کی پہلی نیشنل کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین ملک بھر میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والی خواتین کی دہائیوں سے جاری جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
چاروں صوبوں کی خواتین یونین رہنماؤں کا کمیونٹی ہیلتھ ورکرز، پولیو ورکرز اور کمیونٹی دائیوں کو درپیش مشترکہ مسائل بشمول خواتین پولیو ورکرز پر حملوں، ہراساں کرنا، کم از کم اجرت سے انکار، تنخواہوں میں تاخیر اور کمی جیسے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی فیڈریشن بنانے پر اتفاق۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، جو 1994 میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے شروع کیا تھا، 30,000 ورکرزسے بڑھ کر 125,000 ورکرز تک پہنچ گیا ہے۔ یہ کارکنان پاکستان کے بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، خاص طور پر دیہی اور کم سہولت والے علاقوں میں۔ ایک کامیاب جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر تمام لیڈی ہیلتھ ورکرز نے 2012 میں ریگولرائزیشن حاصل کی، جو ان کی پہلی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے باوجود آج بھی پولیو ورکرز کو باقاعدہ اور کم از کم اجرت سے محروم رکھا جاتا ہے۔
پی ایس آئی کی ایشیا پیسفک ریجن کے لیے ریجنل سیکریٹری کیٹ لیپن نے نیشنل کنونشن میں شرکت کی اور کارکنوں سے خطاب میں کہا، پبلک سروسز انٹرنیشنل (PSI)، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو پاکستان بھر میں متحد اور منظم کرنے میں مدد فراہم کررہی ہے، پاکستان میں پہلی یونین، آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین کو قانونی طور پر قائم کرنے میں معاونت کرتی رہی ہے۔
کنزہ ملک، صوبہ پنجاب سے پولیو ورکر اور پاکستان کمیونٹی ہیلتھ ورکرز فیڈریشن کی سیکریٹری، یوتھ افیئرز کہتی ہیں، ہم سخت موسمی حالات میں مسلسل کام کرتے ہیں لیکن بطور انسان ہمارا احترام نہیں کیا جاتا۔ ہماری فیڈریشن کا اتحاد اس رجحان کو بدل دے گا، تاکہ ہم اپنے حقوق حاصل کرسکیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی اورپاکستان کمیونٹی ہیلتھ ورکرز فیڈریشن کی چیئرپرسن رفاست بی بی نے کہا، ہم کمیونٹی کو تعلیم اور ان کے بچوں کو ویکسین دیتے ہیں، لیکن ہمیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہماری آواز بنے گی اور ہم اپنی پہچان، احترام اور منصفانہ سلوک کے لیے لڑیں گے۔
بی بی جان بلوچ، بلوچستان کی لیڈی ہیلتھ ورکر اور پاکستان کمیونٹی ہیلتھ ورکرز فیڈریشن کی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری نے کہا، ہم روزانہ ڈیوٹی کے دوران میلوں پیدل چلتے ہیں، خطرات اور مزاحمت کا سامنا کرتے ہیں، ہمارا کام خواتین اور بچوں کی جان بچانا ہے، ہم تحفظ، احترام اور اپنے کام کے اعتراف کا تقاضا کرتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان لیڈی ہیلتھ ورکرز کے سروس اسٹرکچر کا فوراً اعلان کرے۔
سندھ کی لیڈی ہیلتھ سپروائزر اور فیڈریشن کی صدر، حلیمہ لغاری نے کہا، ہم حکومت کو صحت کی سہولتیں آؤٹ سورس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم مل کر صحت عامہ کی خدمات کی حفاظت کریں گے۔
پنجاب کی لیڈی ہیلتھ سپروائزر اور فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری راحیلہ تبسم نے کہا، فیڈریشن تمام کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے بنیادی حقوق اور حفاظت کو یقینی بنائے گی۔ پبلک سروسز انٹر نیشنل پاکستان بھر کے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو مبارکباد دیتی ہے جنہوں نے خود کو ایک طاقتور نیشنل فیڈریشن کے طور پر منظم کیا ہے۔ یہ خواتین جو صحت عامہ کی بہتری کے لیے خود کو وقف کرتی ہیں، انتہائی دور دراز کی کمیونٹیز کو مدد فراہم کرتی ہیں بلاشبہ عزت، کافی اجرت اور باوقار ریٹائرمنٹ کی حق دار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ پاکستان اور دنیا بھر میں کارکنوں کے اتحاد سے ہی حاصل ہوگا، ہم فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم کمیونٹی ہیلتھ روکرزکے ساتھ یکجہتی اور مسلسل کام کرتے رہیں گے۔ کیٹ لیپن، ریجنل سیکرٹری پی ایس آئی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں سے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی مندرجہ ذیل پانچ بڑی یونینوں نے متحد ہوکر فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔
1.پنجاب لیڈیز ہیلتھ ورکرز یونین، شیخوپورہ۔
2. لیڈیز ہیلتھ ورکرز یونین، فیصل آباد۔
3. آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین۔
4. آل خیبر پختونخوا لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ اسٹاف یونین۔
5. بلوچستان لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین۔