ایک تعلیم یافتہ اور باشعور شخص کی پہلی پہچان اس کا طرزِ گفتگو ہے۔ اسے کچھ آئے یا نہ آئے، بات کرنے کا طریقہ اور اس کے سارے اصول ضرور آنے چاہیے۔ اور دیکھا جائے، تو اعلیٰ اخلاق کا بھی معیار یہی ہے۔
چوں کہ میرا تعلق لسانیات اور زبانوں سے ہیں، تو میں خود بھی کسی انسان سے قربت یا دوری اس کے اندازِ گفتگو کو دیکھ کر اختیار کرتا ہوں۔ زبان قربت اور دوری، دونوں میں معاون ہے۔
میرے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں، جو محض مختصر تفریح کے لیے اپنے لب و لہجے سے لوگوں کا دل دُکھاتے ہیں۔ بڑوں اور چھوٹوں کا فرق تو دور کی بات ہے، وہ اپنے والدین سے بھی ایک نا مناسب انداز میں ہم کلام ہوتے ہیں۔
چھوٹے نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں، تو بڑے ہنس کر داد دیتے ہیں اور پھر وہی چھوٹے بڑے ہو کر اپنے چھوٹوں کو داد دیتے ہیں، اور جس ماحول میں ان کا ناقص دماغ پرورش پا رہا ہوتا ہے، وہ پورا ماحول اس ہی طرح کے دماغوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اسٹریس، ایک وبا: کیا محمد شاہ نواز کے پاس اس کا حل موجود ہے؟
اس وجہ سے ان کی پکڑ نہیں ہوتی اور یہ شان بے نیازی اور ڈھٹائی سے اپنے بداخلاقی کا جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔ اور اہل علم و عقل سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
میرا سب کو یہی مشورہ ہے کہ اپنے طرز گفتگو میں نرمی اختیار کریں، ورنہ دوری اختیار کریں۔ گھر کے باہر کسی سے بات کریں، اپنے گھریلو لہجے میں نہ کریں، معیاری لب و لہجہ کو بروئے کار لائے۔
دوسروں سے بات کرتے ہوئے سوچیں، جیسے آپ خود سے بات کر رہے ہیں۔ سوچیں، کون سے الفاظ، کیسا لہجہ، سامنے والے کا دل دُکھا سکتا ہے، تو اس سے اجتناب برتیں۔
بولنے سے پہلے تولیں، یہ بات اتنی بار کہی گئی کہ اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہے۔ میں کہتا ہوں، اگر بولنے سے پہلے نہیں سوچتے، تو کم از کم بولنے کے بعد ہی سوچ لیں۔
ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ بہت ہیں، مگر انھیں گفتگو کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ سرکاری اداروں میں، پبلک ڈیلنگ کرنے والے افراد میں ایک طرح کا چڑچڑا پن ہے۔ جو مایوس کن ہے۔ انھیں نرمی برتنی چاہیے۔
اس غفلت کا سبب یہ ہے کہ ہم نے بولنے کو، گفتگو پیدایشی صلاحیت سمجھ لیا ہے، بے شک یہ پیدایشی صلاحیت ہے، مگر درحقیقت یہ ہنر ہے، اگر آپ اسے ہنر سمجھیں گے، تو اسے نکھار کر، بہتر بنائیں گے۔
اور گفتگو کے فن میں بہتری سے آپ بہتر انسان بن جائیں گے۔ اسے آزمائیں، آپ مایوس نہیں ہوں گے۔