"بھارت ہماری سڑکوں پر سونا بھی بچھا دے، ہم پھر بھی تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار نہیں ہوں گے۔” اپنے خطابات میں برملا بھارت سے اظہارِ بیزاری اور پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے والے حریت رہنما سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کا خواب پورا ہوتا نہ دیکھ سکے۔ وہ گزشتہ شب بھارتی سری نگر کے علاقے حیدر پورہ میں نظر بندی کے دوران انتقال کرگئے۔
سید علی گیلانی ایک طویل عرصے سے علیل تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 92 سال تھی۔ انہوں نے کشمیر کو بھارت کے ناپاک شکنجے سے نکالنے کے لیے نصف صدی سے زائد عرصے تک جدو جہد کی۔ انہوں نے "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” کا نعرہ لگا کر بھارت اور اس کی بزدل افواج کی نیندیں حرام کردی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت جیسی جوہری طاقت سید علی گیلانی کی موت سے بھی بہت خوف میں مبتلا ہے۔ بھارت اس خوف میں بھی مبتلا تھا کہ ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگ امڈ آئیں گے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکام نے بھاری سیکیورٹی میں ان کی میت اپنی تٓحویل میں لے کے زبردستی ان کی تدفین کردی۔ بھارتی خوف کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف چند قریبی رشتے داروں کو ان کی تدفین میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
بھارت مخالف سید علی گیلانی کو "تحریک آزادی کشمیر کا پوسٹر بوائے بھی کہا جاتا تھا۔ اپنے بھارت مخالف نعروں سے نہ صرف انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مہمیز کیا بلکہ خود بھی ایک نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے شمالی کشمیر کے قصبے سوپور کے گاؤں ڈوروں میں 29 ستمبر 1929 کو آنکھ کھولی تھی، جہاں ان کے والدین سرزمینِ عرب سے ہجرت کرکے آباد ہوئے تھے۔ حسب روایت ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے آبائی گاؤں ہی میں ہوئی، تاہم اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لاہور چلے آئے اور اوینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔ دوران تعلیم ابولاعلیٰ مولانا مودودی اور علامہ اقبال کی کتب نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور لاہور سے کشمیر واپسی پر انہوں نے جماعتِ اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اخیار کرلی۔
انہیں شعروسخن سے بہت لگاؤ تھا، ساتھ ہی وہ حسنِ خطابت کے بھی ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف علامہ اقبال کی فارسی شاعری پر مشتمل تین کتابیں لکھیں بلکہ اپنی خود نوشت سوانح عمری اور ایک درجن سے زائد مزید کتابیں بھی تصنیف کیں۔ اپنی شعلہ بیانی نے انہیں بہت جلد بامِ عروج پر پہنچا دیا اور وہ تین مرتبہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انتخابات میں فتح حاصل کی۔ انہوں نے مقامی مقننہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی۔ 1987 میں سید علی گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی پاکستان نواز تنظیموں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ کی حمایت میں الیکشن لڑ کر اس وقت کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو چیلنج کردیا۔ ان انتخابات میں سید علی گیلانی سمیت کئی اتحادی امیدواوں نے کامیابی حاصل کی لیکن ان کی کم تعداد فاروق عبداللہ کے اقتدار کا خاتمہ نہ کرسکی۔
چند سال بعد اتحادی محاذ کے رکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو پراسرار حالات میں مارے گئے۔ ان کی پراسرار موت کے خلاف سید علی گیلانی نے تحریک آزادی کشمیر کا باضابطہ اعلان کردیا، جس کے نتیجے میں فاروق عبداللہ کو کشمیر چھوڑ کر لندن جانا پڑا اور مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ سید علی گیلانی نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا اور آزادی کی مسلح جدوجہد کو ناگزیر قرار دیا۔ 1996 میں سخت ترین فوجی محاصرے میں ہونے والے انتخابات میں فاروق عبداللہ نے دوبارہ برسرِ اقتدار آئے تو بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں شروع کردیں۔ 2002 میں جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون کو قتل کردیا گیا اور کشمیر میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے بعد سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے نہ صرف عالمی فورمز پر اپنا موقف پیش کیا، بلکہ عوامی جلسوں اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا جس میں انہوں نے کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کا بھرپور موقف اپنایا۔ اپنے اس موقف سے وہ مرتے دم تک دست بردار نہیں ہوئے۔ ان کی استقامت کو دیکھتے ہوئے بھارت نے اپنے پانچ اگست کے اقدام سے قبل دیگر کشمیری رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرلیا تھا اور وہ اپنے انتقال تک حالتِ اسیری میں رہے۔
سید علی گیلانی اور جذبہ حریت سے لبریز آزادی پسندوں کا خوف بھارت کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد ان کی میت تحویل میں لے کر حیدرپورہ قبرستان میں فوری تدفین کردی۔ ساتھ ہی بھرپور احتجاج کے خوف سے سری نگر بھر میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ سرینگر کے شہری علاقوں میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کیا جارہا ہے اور سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر سخت سکیورٹی حصار قائم ہے۔
سید علی گیلانی کے ترجمان عبداللہ گیلانی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ حکام سید علی گیلانی کی میت غسل سے قبل ہی جبراً تدفین کے غرض سے لے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میت کو زبردستی لے جانے کے معاملے پر سید علی گیلانی کے اہل خانہ اور فوجی اہلکاروں میں کشیدگی بھی ہوئی۔ کشمیری رہنماؤں نے اس بدسلوکی پر احتجاج کی کال بھی دی ہے تاہم بھارتی حکام کی جانب سے وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ سرینگر میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں اور خاردار تاریں لگادی گئی ہیں اور وادی کشمیر میں کسی کو اپنے گھر چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ سرینگر کی اہم شاہراہوں پر بکتر بند گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار بھی وہاں موجود ہیں۔
سید علی گیلانی کے انتقال پر تمام مکاتب فکر کی شخصیات نے گہرے غم کا اظہار کیا ہے اور عوام کی جانب سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے ٹویٹر پیغام میں سید علی گیلانی کی مستقل مزاجی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اگرچہ زیادہ تر چیزوں پر علی گیلانی سے اتفاق نہیں کرتے تھے لیکن وہ ان کی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے لیے ان کا احترام کرتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی علی گیلانی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھوں نے ساری زندگی کشمیری عوام اور ان کے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری اور قابض انڈین ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔‘ عمران خان نے پاکستان میں علی گیلانی کی وفات پر سرکاری سطح پر یومِ سوگ اور پاکستانی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی علی گیلانی کی وفات پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی سید علی گیلانی کی وفات پر عم کا اظہار کتے ہوئے کہا کہ ’گیلانی صاحب کا خواب تھا کے کشمیر آزاد ہوگا اور یہ خواب جلد پورا ہوگا۔ انھوں نے انڈین حکام کی جانب سے کشمیری رہنما کی تدفین میں جلدی اور پابندیوں کو نامناسب رویہ قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا۔