کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں الحبیب کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے رفاعی پلاٹس پر قبضے کے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مسجد، اسکولز سب پلاٹس بیچ ڈالے۔
چیف جسٹس نے رجسٹرار کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارکس، مسجد اراضی کی الاٹمنٹ کینسل کیوں نہیں کرتے؟ ریاست کیا کر رہی ہے؟ کیا ریاست لاچار ہوچکی؟ نیب کیا کر رہی ہے؟ انہیں جیلوں میں کیوں نہیں ڈالتے؟ 32 پلاٹوں کا معاملہ دس سال سے چل رہا ہے، حکومت کو کچھ فکر نہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ چار افراد نے عبوری ضمانتیں حاصل کر رکھی ہیں، پلاٹس کی الاٹمنٹ کی منسوخی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب کیا آسمان سے اترا ہے؟ ۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریمارکس دیے کہ نیب تفتیشی افسر نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا کیا؟ اگر ضمانت پر ہیں تو کیا ضمانت صدیوں تک چلنی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیشی افسر صاحب، کیا آپ ہی کو فارغ کردیں؟ چیرمین نیب کو کہہ دیتے ہیں، آپ کے خلاف انکوائری کریں، تفتیشی افسر نیب ہی کو جیل بھیج دیتے ہیں، لگتا نہیں کہ یہ تفتیشی افسر ہیں، عوام کے کاموں کے لیے لگایا آپ کو، کسی اور کام میں لگ گئے۔
سپریم کورٹ نے نیب کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے چیئرمین نیب کو قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سینکڑوں کیسز دس دس سال سے التوا ہیں، کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ نے ملزمان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو تفتیشی افسر اوصاف کے خلاف انکوائری کی بھی ہدایت کی اور سماعت کل کے لیے ملتوی کردی۔