اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف تین مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت میں فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے 3 آئینی درخواستوں کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے 13 اپریل کو مجوزہ قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ کچھ فریقین کے وکلا ویڈیو لنک پر پیش ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آخری سماعت نہیں، سب کو سنیں گے، ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم امتناع برقرار ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر اہم نکات سامنے آئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق قانون واضح ہے، تمام فریقین کے وکلا تحریری دلائل جمع کرائیں، ریاست کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ کو اس قانون پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
وکیل طارق رحیم کا کہنا تھا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا، جمہوریت آئین کا اہم جزو ہے، آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم جزو ہیں، دیکھنا ہے کہ کیا عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔
چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل نے سینئر ججز کو بینچ میں شامل کرنے کی استدعا کی، حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ اس بینچ میں شامل ایک جج کے خلاف 6 سے زائد ریفرنس دائر ہوچکے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے الگ کیا جائے، بینچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔
عدالت نے پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ اس بارے میں فیصلہ دے چکا ہے، سیاست نے عدالتی کارروائی کو گندا کردیا ہے، سپریم کورٹ کے ججز کا جاری کیا گیا حکم سب پر لازم ہے۔ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، افتخار چوہدری کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں، کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا، ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں، سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے، ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہے، پیر کو ہم کیس شروع کریں گے پھرسب معاملات کا جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود وقیود بھی ہیں، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے، الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔
سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرلیا۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ اگرعدلیہ نے میری بات کا برا منایا تو معذرت چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ناراض نہیں ہوتے، ہم تو چلے جائیں گے، بار کونسلز ادھر ہی رہیں گی، ہم نہیں ہوں گے، سپریم کورٹ بار کو ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی 13 اپریل کا حکم امتناع واپس لینے کی استدعا بھی مسترد کردی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اورکیوں بنا؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت بینچ بڑھانے پر غور کرے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ کی تعداد کم بھی کی جاسکتی ہے، گزشتہ کیس میں جب فل کورٹ کی درخواست تھی وہ باعث شرمندگی تھی کہ اے بی سی جج کو شامل نہ کیا جائے، اگر سپریم کورٹ کے ججز کا احترام نہ کیا گیا تو پھر یہ انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا، سیاسی جماعتیں من پسند فیصلوں کے لیے پک اینڈ چوز چاہتی ہیں۔
خیال رہے کہ 14 اپریل کو عدالت نے 9 سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ قانون پر کسی بھی انداز میں تاحکم ثانی عمل درآمد نہیں ہوگا، آٹھ صفحات کے پیشگی حکم امتناع میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے بارے میں بل کو جس لمحے صدر کی منظوری مل جاتی ہے یا (جیسا کہ معاملہ ہو) یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی منظوری دے دی گئی ہے، اسی لمحے سے اور اگلے احکامات تک جو ایکٹ وجود میں آئے گا، وہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی طریقے سے اس پر عمل کیا جائے گا۔
8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اس کے صدر کے ذریعے پاکستان بار کونسل کو اس کے وائس چیئرمین کے ذریعے نوٹس جاری کیا جب کہ 9 سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کیا، حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر یہ سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکیل کے ذریعے حاضر ہوسکتی ہیں، ان 9 سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) شامل ہیں۔