اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم پورے ملک کا وزیراعظم ہے، کسی ایک پارٹی کا نہیں۔
سپریم کورٹ نے جائیداد سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار رفاقت شاہ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ وکلاء کے مخصوص گروپ کی تقریب میں احمد اویس شریک ہوئے، وزیراعظم نے تقریب میں شرکت کرکے وکلاء گروپ کو سپورٹ کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے بلکہ کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے، ایڈووکیٹ جنرل کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا ہوتا ہے، وزیراعظم پاکستان پورے ملک کا وزیراعظم ہے یا کسی ایک پارٹی کا؟۔
عدالت عظمیٰ نے کنونشن سینٹر میں وکلاء کی ایک تقریب میں شرکت کرنے اور وسائل کے غلط استعمال پر وزیراعظم کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنونشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے معاملے پر بینچ تشکیل دینے کے لیے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی ارسال کردیا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وزیراعظم پورے ملک کا ہے کسی ایک گروپ کا نہیں، وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں، یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے، بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی، وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی، لیکن انہوں نے وکلاء کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی، انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا، کیا وزیراعظم کا اقدام غلط تھا یا درست؟ سوال کا جواب دیں، کیا یہ مشکل سوال ہے؟ قرآن کہتا ہے گواہی والدین کے خلاف بھی دینی پڑی تو دیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہا کہ ایک وجہ سے جواب دینے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوں، میری تقرری سیاسی ہے نہ ہی کسی تقریب میں شریک ہوا۔
عدالت نے سینئر ترین ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو آئندہ سماعت پر معاونت کی ہدایت کردی۔