سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی "ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے ۔وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کوعبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائض ہوئے۔
صلاح الدین اپنے کارناموں میں نور الدین پر بھی بازی لے گیے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے۔
فتح بیت المقدس
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 88 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ انہوں نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین کی خواہش ان کے ہاتھوں پوری ہوئی۔
صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ انہوں نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جوغریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔ بیت المقدس پر قبضہ کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ 1948ء دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا۔ لیکن بعد میں بیت المقدس یعنی یروشلم کو ایک نیوٹرل شہر کے طور پر قائم کردیا گیا جو اس وقت نہ فلسطین میں آتا ہے نہ ہی اسرائیل میں۔
سیرت
صلاح الدین بڑے بہادر اور فیاض تھے۔ لڑائیوں میں انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ اتنے اچھا سلوک کیے کہ عیسائی آج بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔ان کو جہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ ان کے نچلے دھڑ میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے تھے۔ لیکن اس حالت میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر گھوڑے کی پیٹھ پر رہتے۔ ان کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتے کہ جب تک گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع ہوجاتی ہے ۔
مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے عیسائیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے انتظار کررہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لئے انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ لیکن سلطان نے جواب دیا زائرین بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں۔ سلطان نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام کیا۔
صلاح الدین کا غیر مسلموں سے سلوک عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہوتے ہیں جس طرح مسلمانوں کے۔ نورالدین کی طرح صلاح الدین کی زندگی بھی بڑی سادہ تھی۔ ریشمی کپڑے کبھی استعمال نہیں کئے اور رہنے کے لئے محل کی جگہ معمولی سا مکان ہوتا تھا۔
قاہرہ پر قبضے کے بعد جب انہوں نے فاطمی حکمرانوں کے محلات کا جائزہ لیا تو وہاں بے شمار جواہرات اور سونے چاندی کے برتن جمع تھے۔ صلاح الدین نے یہ ساری چیزیں اپنے قبضے میں لانے کے بجائے بیت المال میں داخل کرادیں۔ محلات کو عام استعمال میں لایا گیا اور ایک محل میں عظیم الشان خانقاہ قائم کی گئی۔ فاطمیوں کے زمانے میں مدرسے قائم نہیں کئے گئے شام میں تو نور الدین کے زمانے میں مدرسے اور شفاخانے قائم ہوئے لیکن مصر اب تک محروم تھا۔ صلاح الدین نے یہاں کثرت سے مدرسے اور شفاخانے قائم کئے۔ ان مدارس میں طلبا کے قیام و طعام کا انتظام بھی سرکار کی طرف سے ہوتا تھا۔
وفات
589ھ میں صلاح الدین انتقال کرگئے۔ انہیں شام کے موجودہ دارالحکومت دمشق کی مشہور زمانہ اموی مسجد کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ صلاح الدین نے کل 20 سال حکومت کی۔ مورخ ابن خلکان کے مطابق ”ان کی وفات کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا“۔
موجودہ دور کے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ”اس کے ہمعصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور انہوں نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔