اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (سندھ) نے گٹھ جوڑ کے ذریعے وفاقی حکومت کے خلاف سازش کی ہے، سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے واضح احکامات کے باوجود شوگر ملیں جو کہ 15 اکتوبر کو چلنی تھیں نہیں چلائیں ، سندھ حکومت نے شوگر ملیں چلوا کر پھر بند کروادیں اور جو ابھی دوبارہ تک نہیں چلیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر وہ یہ پریس کانفرنس کررہے ہیں کیونکہ موجودہ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیاراور ان کا خاندان چینی کا کاروبار کرتا ہے اس لیے انہوں نے شوگر پر پریس کانفرنس سے معذرت کی ہے اور وہ ان کی جگہ پریس کانفرنس کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت کے خلاف ضرور سازش کرے لیکن عوام کے خلاف نہ کرے، یہ ایک جنگ ہے جوایک سال یا ایک ماہ میں نہیں جیتی جائے گی، تمام سیاسی خاندانوں کی شوگر ملیں ہیں، سیاسی خاندانوں کا گٹھ جوڑ ہے جو کہ گنے کی کرشنگ میں تاخیر کرتے ہیں اور پھر برآمد پر بھی سبسڈی لیتے ہیں اور درآمد پر بھی ڈیوٹیاں لگواتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جنگ جاری ہے اور مہنگی چینی کرنے سے عوام کی جیب سے پیسے جارہے ہیں، اب اس انڈسٹری میں آزادانہ درآمد ہوگی کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی اور کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ نہیں ہوگی، اب شوگر صنعت صرف اور صرف طلب و رسد کی بنیاد پر چلے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سارے اقدامات سے 2 سے 3 ہفتوں میں چینی کی قیمتیں نیچے آجائیں گی اور رواں یفتے چینی کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوجائیں گی۔
ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ نے کچھ سٹے بازوں کو پکڑا ہے، اس کارروائی سے قیمتیں کم ہوں گی اور مزید کم ہوں گی، شوگر مافیا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ شوگر مافیا کے خلاف جنگ چل رہی ہے، تیار چینی کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، کسانوں کو گنے کی زیادہ قیمت کی وجہ سے صورت حال بہتر ہوئی ہے، ہم نے من مانیوں کا قانون ختم کیا ہے۔
حماد اظہر نے بتایاکہ شوگر انڈسٹری کی مانیٹرنگ کا ٹریس اینڈ ٹریک نظام اس سال کام شروع کردے گا، سیاسی سازش میں عوام پس رہے ہیں اب وفاقی حکومت کارروائی کرے گی۔
سندھ حکومت کے بارے میں وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال قانون سازی کی تھی کہ اگرشوگر ملوں نے مقررہ وقت پر نہ چلائیں تونہ صرف ان پرایف آئی آر ہوگی بلکہ جرمانہ بھی ہوگا ، پنجاب اور کے پی نے کرشنگ سیزن شروع کرنے پر قانون سازی کی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کردیا ہے لیکن حکومت سندھ نے ابھی تک اس پر کیوں عملدرآمد نہیں کیا ؟اسکی وجہ یہ ہے کہ چینی تو ذخیرہ کی جاسکتی ہے لیکن گنا نہیں ؟
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ سندھ کی شوگر ملیں اور حکومت سندھ عوام کو بلیک میل کررہی ہیں اور وہ پہلے بھی کررہے تھے ، وفاقی حکومت کے قانون کے مطابق شوگر ملیں جنوبی پنجاب میں 15 نومبر کو جب کہ باقی شوگر ملیں 20 نومبر کو چلائی جاتی ہیں اور کسانوں کو وافر پیسے ملتے تھے لیکن اب شوگر ملوں والے اس قانون پر عملدرآمد نہیں کررہے ہیں۔ سندھ حکومت نے اب تک یہ قانون پاس ہی نہیں کیا اور ہماراخدشہ درست ثابت ہوا کہ ان کا (سندھ حکومت) گٹھ جوڑ رہے تاکہ عوام وفاقی حکومت کو برا بھلا کہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ سال نومبر میں بھی چینی کی قیمت 100 اور 110 روپے ہوگئی تھی لیکن درآمدی چینی کی وجہ سے قیمت دوبارہ کم ہوکر70 روپے تک واپس آگئی تھی۔انہوں نے کہا کہ اب بھی ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی مارکیٹ میں لائی جارہی ہے جس کی قیمت 90 روپے فی کلو ہوگی، 30 ہزار کا کارگو پورٹ پر لگ رہا ہے جب کہ 25 ہزار میٹرک ٹن یوٹیلٹی اسٹورز کے پاس موجود ہے۔ پنجاب حکومت کو بتایاگیا ہے کہ وہ درآمدی چینی کو ٹرکوں کے ذریعہ یوٹیلٹی اسٹوروں پر فراہم کرے ، یہ جنگ شوگر مافیا کے خلاف ہے۔