امریکا اور سویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں مشرق وسطی ایک اہم میدان رہا، جہاں دونوں سپر پاورز نے ایک دوسرے کے خلاف مختلف چالیں چلیں۔ اس سیریز میں ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ امریکا نے اپنے دیو قامت حریف کو کیونکر شکست سے دوچار کیا۔ ہم یہ کہانی امریکی خارجہ پالیسی کے چار ڈاکٹرائنز کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آج کے اس مضمون میں آئزن ہاور ڈاکٹرائن کا جائزہ لیا جارہا ہے:
1953میں جب ڈوائٹ آئزن ہاور اور جان فوسٹر ڈلس کی جوڑی وائٹ ہاوس میں داخل ہوئی تو انھوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کی سینیئر پارٹنر کی پوزیشن مستحکم کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ابتداء میں وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے پیش رووں کے بنائے گئے (مشرق وسطی کے ممالک پر مشتمل) علاقائی دفاعی نظام کو جارحانہ انداز دے کر اپنا مقصد (سویت یونین کو قابو میں رکھنا) حاصل کرسکیں گے، لیکن مصر کے جمال عبد الناصر نے انھیں صاف صاف بتا دیا کہ عرب ممالک ایسی کسی گروپنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سیکرٹری خارجہ ڈلس نے صدر آئزن ہاور کو رپورٹ دی کہ ترکی اور پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ملک اس قسم کے اتحاد کے لئے تیار نہیں ہے، لہٰذا انھیں نئی گروپنگ کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اب آئزن ہاور انتظامیہ نے برطانیہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں شروع کردیں کہ وہ اپنی علاقائی سیکیورٹی پالیسی کی توجہ عرب ممالک سے ہٹاکر ترکی اور پاکستان کے خطے پر مرکوز کرے لیکن وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کی دلچسپی خلیج فارس اور سوئز میں برطانوی سامراجی چوکیوں میں زیادہ تھی، اس لیے انھوں نے اپنی پالیسی تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔
برطانوی فوجی منصوبہ سازوں نے 1954 میں محسوس کرنا شروع کردیا کہ ہائیڈروجن بم وجود میں آنے کے بعد سوئز میں ان کے فوجی ٹھکانے اب تباہ کن حملے کی زد میں آسکتے ہیں اور ان کا اب کوئی خاص فائدہ نہیں رہا۔ اس طرح برطانیہ نے مصر سے دو سال کے اندر اندرنہرِسوئز سے انخلا کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس طرح امریکا کے لئے اس خطے میں علاقائی ممالک پر مشتمل نئی دفاعی گروپنگ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس سلسلے میں پہلا ٹھوس قدم 2 اپریل 1954 کو اٹھایا گیا جب ترکی اور پاکستان نے دوطرفہ باہمی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے۔ ایک ماہ بعد آئزن ہاور نے ترکی، پاکستان، ایران اور عراق پر مشتمل ایک تنظیم قائم کرنے کی پالیسی منظورکی۔ علاقائی ممالک پر مشتمل اتحاد کی یہ اسکیم مشرق وسطی میں مغربی مفادات کے تحفظ کے لئے کاغذوں پر تو بہت پرکشش اور موثر لگ رہی تھی، لیکن عملی طور پر اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں پیش آئیں۔ ایک طرف امریکا اور برطانیہ کے درمیان اس اسکیم کے نفاذ کے طریقہ کار پر اختلافات پیدا ہوئے تو دوسری جانب ترکوں، ایرانیوں اور عربوں کے تاریخی اختلافات نے اسکیم کی کامیابی مشکل بنا دی۔
امریکا نے برطانیہ کو نصیحت کی کہ وہ اس تنظیم میں باضابطہ طور پر شامل نہ ہو، بلکہ دور سے ہی اس کو استعمال کرے، لیکن برطانیہ جس نے حال ہی میں سوئز سے انخلا کیا تھا اور خطے میں اس کا اثرورسوخ کافی حد تک کم ہوگیا تھا، اس نے امریکا کی بات نہیں مانی اور تنظیم میں شمولیت کے ذریعے خطے میں اپنی موجودگی اور وقاردوبارہ بڑھانے کو ترجیح دی۔ اس نے یہاں امریکا کے ساتھ ڈبل گیم شروع کردیا۔ ایک طرف وہ امریکا سے مل کر اس اتحاد کو استوار کررہا تھا اور دوسری طرف چپکے سے عراق کو قائل کیا کہ وہ یہ تنظیم چھوڑ کر پان عرب سیکیورٹی نظام قائم کرنے کے لئے کام کرے جس کا حریف سویت یونین نہیں بلکہ اسرائیل تھا۔
اس دوران ایران نے امریکا سے کھلم کھلا کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک اس اتحاد میں شامل نہیں ہوگا جب تک اسے کروڑوں ڈالر کی امریکی فوجی امداد نہیں دی جاتی۔ ان مسائل کے باوجود امریکا کو اس وقت کامیابی ملنے لگی جب ترکی اور عراق نے 24 فروری کو سویت یونین کے خلاف باہمی دفاعی معاہدہ (بغداد پیکٹ) کرلیا اور اس کے سات ماہ بعد پاکستان اور پھر ترکی بھی امریکی فوجی امداد کے وعدوں پر اس اتحاد میں شامل ہوگئے، مگرجب برطانیہ نے امریکی نصیحت نظرانداز کرتے ہوئے 5 اپریل 1955کو اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تو امریکا کے لئے دو بڑے مسائل پیدا ہوگئے۔
امریکا نے محسوس کیا کہ برطانیہ ایسا کرکے خطے میں اپنی پرانی حیثیت بحال کرنا چاہتا ہے اور اس کی موجودگی کی وجہ سے مصر کے جمال عبدالناصر کی شمولیت کے امکانات ختم ہوگئے ہیں، جو برطانیہ کے سامراجی ارادوں اور اسرائیل کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث تیزی سے سویت کیمپ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بغداد پیکٹ کی امریکی حمایت اور اس میں برطانوی شمولیت نے سویت یونین کو موقع فراہم کردیا اور اس نے مصر اور شام میں یہ پروپیگنڈا پھیلانا شروع کردیا کہ یہ ممالک دفاعی معاہدوں کے بھیس میں سامراجی مفادات کا تحفظ اور سویت یونین کے خلاف کام کررہے ہیں۔
اسی کشمکش میں مصر نے سویت یونین کے ساتھ کاٹن کے بدلے ہتھیاروں کی فراہمی کا 86 ملین ڈالر مالیت کا معاہدہ کرلیا تو امریکا اور برطانیہ نے اسے اپنی جانب راغب کرنے کے لئے دریائے نیل پر اسوان ڈیم کی تعمیر کے لئے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کردی، لیکن ناصر بڑے اسمارٹ نکلے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ دباو بڑھا کر وہ امریکا ، برطانیہ اور سویت یونین تینوں ممالک سے فوائد بٹورسکتے ہیں۔ اس عمل میں امریکا کی ناصر کے لئے ہمدردیاں اتنی بڑھ گئیں کہ بغداد پیکٹ میں شامل اس کے اتحادی نان کمیونسٹ ممالک نے شکایتیں شروع کردیں کہ امریکا ان کے مقابلے میں مصر پر زیادہ نوازشات کر رہا ہے۔
ان مسائل اور برطانیہ کے ڈبل گیم نے ڈلس کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ برطانیہ نے بغداد پیکٹ پر قبضہ جما لیا ہے اور وہ اس کے ذریعے خطے میں اپنے مفادات آگے بڑھا رہا ہے۔ برطانیہ سے شدید اختلافات کے باعث امریکا نے مصر کو ڈیم کی تعمیر میں مدد کرنے کی اپنی پیشکش واپس لے لی، جس کے جواب میں ناصر نے برطانیہ اور فرانس سے سوئز کی ملکیت چھین لی۔ امریکا کو خطے میں ایک بڑی جنگ کا خدشہ لاحق ہوا اور اس نے برطانیہ اور فرانس کو سمجھانا شروع کردیا کہ وہ سوئز بحران مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور فوجی مہم جوئی سے پرہیز کریں۔ لیکن برطانوی وزیراعظم انتھونی ایڈن نے 1956کے موسم خزاں میں فرانس اور اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر سوئز کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے لئے مصر پر چڑھائی کردی۔
امریکی صدر آئزن ہاور کو برطانیہ کے اس اقدام سے شدید دھچکا لگا اور انھوں نے برطانیہ کے خلاف سفارتی اور معاشی دباو استعمال کرتے ہوئے اسے ایک ماہ بعد مصر سے انخلا پر مجبور کردیا۔ برطانیہ کی جانب سے امریکی دباؤ میں آکر انخلا کرنے کے فیصلے کو اس کی کم ہوتی طاقت کی آخری نشانی کے طور پر دیکھا گیا اور یہ بات کہی جانے لگی کہ اس نے خطے میں قیادت کی مشعل امریکا کے ہاتھ میں تھما دی ہے اور یہاں اس کے اثرورسوخ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
اب امریکا نے چالیں چلنی شروع کردیں کہ کسی طرح سے سویت یونین کو برطانوی طاقت ختم ہونے کے بعد خطے میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے سے روکا جاسکے۔ آئزن ہاور کا علاقائی ممالک پر مشتمل اتحاد کا تجربہ پہلے ہی ناکام ہوچکا تھا، اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ امریکا اب اتحادی ممالک سے الگ الگ معاملات رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا اور اس طرح آئزن ہاور ڈاکٹرائن کے خدوخال ترتیب دینا شروع ہوگئے۔
یکم جنوری 1957 کو آئزن ہاور نے مشرق وسطی پر ایک غیر معمولی بریفنگ کے لئے 29 اراکین کانگریس کو کیبنٹ روم مدعو کرلیا۔ انھوں نے بریفنگ میں کہا کہ نہرسوئز بحران نے مسلم دنیا میں برطانیہ کا روایتی اثرورسوخ تباہ کردیا ہے، جس کے نتیجے میں عرب نیشنل ازم پر مبنی بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے اور سویت یونین کے لئے خطے میں نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس یہاں سویت یونین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے امریکا کو یہ خلا پر کرنے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔
آئزن ہاور نے مشرق وسطی کی نئی اور خطرناک صورتحال سامنے رکھنے کے بعد کہا کہ وہ کانگرس سے استدعا کریں گے کہ وہ انھیں خصوصی اقتصادی فنڈ اور ضرورت پڑنے پر فوجی طاقت استعمال کرنے کی اجازت دے۔ انھوں نے کہا کہ یہ خطہ سویت ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لئے دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ امریکا فوری کارروائی کے لئے تیار ہے۔ اس کے ایک روز بعد ڈلس نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا، "برطانیہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر امریکا نے نئی ذمہ داریاں نہیں سنبھالیں تو یہ خطہ سویت ہاتھوں میں چلا جائے گا جو کہ امریکا کے لئے ایک بڑی تباہی ہوگی۔ آئزن ہاور کو حفظ ما تقدم کے طور پر فوجی طاقت استعمال کرنے کی اجازت دینے سے سویت یونین کو حملے سے روکا جاسکے گا اور اس سے اس کے پریشان اتحادیوں ایران، عراق اور ترکی کو یہ یقین ہوجائے گاکہ امریکا ان کے دفاع کے لئے کھڑا ہے۔“
انھوں نے مزید کہا کہ امریکی مالی امداد کے ذریعے اس کے اتحادیوں کی معیشتیں مضبوط ہوجائیں گی اور وہ سویت یونین کے ہاتھوں میں جانے سے بچ سکیں گے۔ اس طرح مارچ کے اوائل میں کانگریس نے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کی منظوری دے دی، جس کے تحت صدر کو انٹرنیشنل کمیونزم کے زیرکنٹرول کسی بھی ملک کی جانب سے مسلح جارحیت کے خلاف مدد کی درخواست کرنے والے مشرق وسطی کے کسی بھی ملک کی مدد کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کا اختیاراور ایسے ممالک کو اقتصادی سپورٹ فراہم کرنے کے لئے 200 ملین ڈالر کا پیکج مل گیا۔
اس دوران سویت یونین اور شام آپس میں پینگیں بڑھا رہے تھے اور امریکا کو خدشہ تھا کہ یہ ملک سویت کیمپ میں جاسکتا ہے۔ ان کے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب شام نے سویت یونین سے گندم کے مقابلے میں ہتھیاروں کی وصولی کا معاہدہ کرلیا۔ اس سے خطے میں امریکی اتحادیوں کو اپنی سلامتی کے بارے میں شدید خوف پیدا ہوگیا۔ امریکا نے محسوس کیا کہ اگر اس نے حالات پر قابو نہیں پایا تو شام کے بعد پورا مشرق وسطی کمیونسٹ بلاک میں جاسکتا ہے۔ صدر نے پینٹاگون کو فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دے دیا اور شام کے پڑوسی ممالک اور اپنے اتحادیوں کو یقین دہانی کرائی کہ امریکا روس یا شام کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں ان کی مدد کو آئے گا۔ اس طرح آئزن ہاور ڈاکٹرائن کا پہلاعملی استعمال سامنے آگیا۔
چند ماہ بعد امریکا کے لئے خطے میں نئی مشکلات پیدا ہوگئیں۔ جولائی 1958میں عراق میں مغرب مخالف فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، اردن میں اسی طرح کے عناصر نے حکومت گرانے کے خطرات پیدا کردیے جبکہ لبنان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ لبنا ن کے صدر کامل شمعون نے آئزن ہاور سے درخواست کی کہ وہ امریکی فوج بھیج کر حالات پر قابو پانے میں مدد فراہم کریں۔ اردن کے شاہ حسین نے بھی اپنا تخت بچانے کے لئے امریکا اور برطانیہ سے مدد مانگ لی۔
آئزن ہاور نے فوری اجلاس بلایا اور اپنے پالیسی سازوں سے کہا کہ عراق انقلاب نے خطے میں امریکی دوستوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور امریکا کوجلد ہی ان کی مدد کرنی ہوگی ورنہ پورا مشرق وسطی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ امریکی انتظامیہ سمجھ رہی تھی کہ لبنان کا بحران نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری تیسری دنیا میں امریکی اثرورسوخ کا امتحان ہے۔ ڈلس نے ایک اجلاس کے دوران پالیسی سازوں پر زور دیا کہ اگر امریکا نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو ترکی، ایران اور پاکستان سمجھیں گے کہ امریکا سویت یونین سے ڈر رہا ہے۔ اور اس طرح آئزن ہاور ڈاکٹرائن پر عمل کرنے کا ایک اور موقع آگیا۔
آئزن ہاور نے برطانوی وزیرعظم ہیرالڈ میک ملن سے مدد مانگی جنھوں نے اردن میں شاہ حسین کے حق میں اپنی مداخلت کے لئے امریکی حمایت کے بدلے میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح جب ان کی فوجیں ان ممالک میں گھس گئیں تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی سفارتی معاونت کر رہے تھے۔ امریکا نے گولی چلائے بغیر لبنان کی خانہ جنگی پر قابو پالیا، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ عرب ممالک کے عوام عرب قوم پرستی کی شدت میں برطانیہ کی سامراجیت سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اب برطانیہ کا ساتھ ایک بوجھ ہے۔ اس لیے آئزن ہاور نے اپنے دیرینہ دوست کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور خطے میں اکیلے ہی پالیسیاں ترتیب دینا شروع کردیں۔