سائنس نے علم کے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ وہ کوزہ ہمارے ہاتھ میں بھی اتنا ہی ہے جتنا یہ آسمان، جو سب کی نظر میں ہے، ہماری نظر میں بھی ہے، مگرہم آنکھیں بند رکھتے ہیں۔
میں صرف معلومات کے وسیلے کی بات کرتا ہوں۔ پہلے علم کا طالب علم رکھنے والوں تک رسائی کیلۓ نگری نگری سفر کرتا تھا۔ پھر کتاب آگئی۔ ۔ہزاروں لاکھوں ۔سب کو پڑھنا ممکن نہیں تھا تواس کے بعد کتابوں کی کتاب بن گیٔی۔ آپ میں سے کچھ نے’’انساییٔکلو پیڈیا برٹینیکا‘‘ کا نام بھی شاید نہ سنا ہو، میں نے ان ضخیم کتابوں کا بھیانک ذخیرہ دیکھا ہے جو ایک لائبریری کی دیوار پر الماریوں میں یو ں سجا ہوا تھا کہ دوسری دیوار بن گیٔ تھی۔ آکسفورڈ پریس والےان کتابوں کو وقفے وقفے سےانگریزی حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کرتے تھے، چنانچہ چھبیس حروف تہجی تو بر حق، شاید کسی حرف کے ایک سے زیادہ والیوم ہوں تو کل تیس چالیس کتابیں۔ ہر والیوم ڈیڑھ فٹ لمبا ایک فٹ چوڑا اور تین انچ موٹ، پانچ کلو وزن کا تو ہوگا کم سے کم۔ ان میں سارے جہان کی معلومات جمع کردی گئی تھیں۔
ہر نئے ایڈیشن میں جدید ترین معلومات شامل کی جاتی تھیں جو گزشتہ میں شامل نہیں تھیں۔ یہ کوئی معمولی کام یقیناً نہیں تھا۔ خدا معلوم ماہرین اور ریسرچ اسکالر کیسے کرتے تھے لیکن جب نیا ایڈیشن آتا تھا تو حرف آخر مان لیا جاتا تھا۔ اس کی قیمت؟ واللہ نہیں معلوم۔ آج کے لاکھوں سمجھ لیں۔ ظاہر ہے رییٔس اپنے محلات میں سجا کے ایک عالم کو دنگ کرتے تھے اورلاییبریریاں خریدلیتی تھیں۔ پھر ریسرچ اسکالر ان میں اپنے مطلب کی معلومات تلاش کرتے تھے، تو گویا علم کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے تھے۔ اس میں کسی موضوع یا مضمون کو تلاش کرنا بھی پوری سائنس تھی، لیکن دریا میں اترنے والے تیرنا سیکھ لیتے تھے اور بتا دیتے تھے کہ یہ فلاں والیوم میں فلاں جگہ لکھا ہے۔ آگے کس کی مجال کہ دم مار سکے۔ کس میں ہمت کفر اور جرأتِ تحقیق کہاں سے آئے۔
وہ اب بھی لاییبریریوں میں موجود ہیں لیکن لاییٔبرییریاں دیکھ کر ہم عبرت پکڑتے ہیں۔ لاہور کی پنجاب پبلک لاییبری سے میانی صاحب کا اور کراچی کی لیاقت نیشنل لاییبریری سے میوا شاہ کے قبرستان کا تصور ذہن میں آنا فطری بات ہے۔ لاکھوں قبریں لاکھوں کتابیں۔ میں اسلام آباد کی نیشنل لائبریری کی ان گنت سنسان گلیوں میں پھرا، جن میں گزشتہ سو ڈیڑھ سوبرسوں کی سب کتابوں رسالوں کے مردے پڑے تھے، مگر ان رسالوں اور ان کتابوں کا زمانہ گزر گیا۔ سائنس کا معجزاتی کرشمہ دیکھیں کہ وہ انسائیکلو پیڈیا سمٹ کر تین چار سی ڈیز میں سما گیا، پھر ایک لیپ ٹاپ یا موبائل فون کی میموری میں سما گیا اور اب کیا شہر کیا گاؤں ہرشخص معلومات کی اس الیکٹرونک انسائیکلو پیڈیا کا مالک ہے۔ اسے اب وکی پیڈیا اور گوگل کہتے ہیں۔ میں ہر وقت حیران ہوتا رہتا ہوں کہ میری دسترس میں کیا نہیں ہے، لیکن حیرانی بھی کب تک اور کہاں تک؟ میں لکھتا ہوں، گوگل صاحب یہ دوا کیا ہے؟ اب وہ مجھے بتانا شروع کرتا ہے۔ دوا، اس کا کام، اس جیسی تمام دوائیں۔ ہر کمپنی کا نام، استعمال خوراک، فائدے، نقصانات، قیمت۔ تنگ آ کے میں بند کر دیتا ہوں۔ بکواسی، ۔یہ سب کس نے پوچھا تھا۔ اس میں کویٔ مبالغہ نہیں۔ میری تیسری نسل گوگل سے پوچھ کے ٹی وی کی خرابی دور کر چکی ہے۔ ہوم اپلائنس ٹھیک کر چکی ہے۔ وہ بتاتا ہے یوں کرو، ایسے کرو۔ میرے میوزک سسٹم کا ریموٹ ٹوٹ گیا۔ دوسرا ملنا ناممکن تھا۔ میرے نواسے نے کہا نانا گوگل سے بنالیں۔ اور پھر یہی ہوا۔ گوگل صاحب کی ہدایات پر مل کیا اور میرا موبائل فون ہی ریموٹ بن گیا۔ موٹر وے پر جہاں دھند میں ساتھ بیٹھی بیوی بھی مدھو بالا لگے، گوگل صاحب کو ٹھیک نظر آتا ہے۔ سو میٹر بعد بائیں جانب موڑ ہے۔ پھر سوا سو میٹر پر دائیں طرف کی دوسری اسٹریٹ۔ اجنبی شہر میں اندھے کو گھر کے دروازے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ یا مظہر العجائب۔ اب اجنبی شہر یا ملک میں راستہ کویٔ نہیں پوچھتا۔ اس سے قبل بھی برطانیہ جیسے عوام دوست ممالک میں کوئی راستہ پوچھے تو سمجھا یہ جاتا تھا کہ یا تو وہ انگریزی نہیں پڑھ سکتا، یا پھر روڈ سائن کے نظام میں خرابی ہے۔
میں یہ سب آپ کو کیوں بتا رہا ہوں؟ آپ سب جانتے ہیں، مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم اس مفت کے خزانے میں سے کچھ بھی نہیں لے رہے ہیں۔ سوائے تفریح کے۔ انسائیکلو پیڈیا ہماری دسترس میں نہیں تھا اور بہت مشکل تھا لیکن اب سارے جہاں کا علم ایک کلک کی مسافت پر ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں لیکن غالب اکثریت سوشل میڈیا سے آگے نہیں جاتی۔ گپ شپ، تفریح، ٹک ٹاک، یو ٹیوب پر صرف فلمیں اور میوزک، چنانچہ میں نے کوریا کے بارے میں ایک پوسٹ شییٔر کی تو بہت لوگوں نے سوال اٹھایا کہ میں یہ سب کیسے جانتا ہوںَ؟ کوریا جا چکا ہوں یا یا وہاں میرا کوئی رہتا ہے؟ ایک تھیسس لکھنے والی لڑکی سے میں نے کہا کہ بیٹا یہ سب یو ٹیوب پر ہے۔ ہرملک کے بارے میں فلمیں ہیں۔ ان میں کچھ ٹورسٹ پروموشن والوں کی ہیں لیکن بے شمار خود سرکاری اداروں کی معلومات ہیں جو وہ اپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔
برطانیہ میں بھی ہر گاوں قصبے میں آج کی آبادی لکھی جاتی ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوا تو بڑھ گئی۔ کوئی مرگیا تو کم ہوگئی۔ بیش تر ممالک غلط اعداد و شمار سے خود کو دھوکا نہیں دیتے، دنیا کو کیوں دیں گے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں جھوٹ کو سچ بنانے کیلۓ اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ مزاح کے بادشاہ مشتاق یوسفی نے لکھا تھا، ’’جھوٹ کی تین اقسام ہیں۔۔ جھوٹ ۔ سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار۔‘‘ یہ مزاح کی بات آج ہمارا قومی المیہ ہے۔
یہ لا علمی کیا ہے اور کیوں ہے؟ میری فیملی میں ہمہ وقت لیپ ٹاپ استعمال کرنے والے نوجوانوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے والدین کو ڈاکٹر نے کیا دوا دی ہے اور کیوں۔ اگر کہیں ایک دوا نہ ملے تو وہ سارا شہر گھوم کر پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ گوگل ان کو ہر دوا کا متبادل بتا سکتا ہے۔ خرابی کی ایک وجہ دوا کا برانڈ نیم بھی ہے۔ جہاں دوا ساز ادارے ڈاکٹر۔ حکومت اور دوا فروش کے ساتھ مل کر عام لوگوں کو لوٹنا چاہتے ہیں وہ دوا کا ایک نام رکھ کر پیٹنٹ کرا لیتے ہیں جو اور کوئی استعمال نہیں کر سکتا اور پھر اپنی مرضی کی قیمت مقر کرتے ہیں۔ جتنا بڑا دوا ساز ادارے کا نام اتنی زیادہ قیمت۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں یہ لوٹ مارنہیں ہے۔ قطر یا دبیٔی میں بھی ڈاکٹر ’’پیراسیٹا مول‘‘ لکھے گا پینا ڈول نہیں۔ اسے غرض نہیں کہ کیمسٹ کس کمپنی کی دوا دیتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں بھی یہ نظام قائم کیا گیا تھا، بعد میں اسے ختم کردیا گیا۔کر دیا گیا۔
نوجوانوں کو ضرورمعلوم ہونا چاہۓ کہ جس مریض کا وہ علاج کرا رہے ہیں اس کا مرض کیا ہے اور جو دوا ڈاکٹر نے لکھی ہے وہ کتنے ناموں سے دستیاب ہے۔ بیشتر بہت سستی بھی ہوں گی۔ ڈاکٹر نے تو مہنگی دوا اپنے کمیشن کے چکر میں لکھی ہے، لیکن جب آپ لا علمی خود پسند کریں تو چالاک کاروباری دنیا کے ہاتھوں لٹنا اور پھر رونا آپ کا مقدر ہے۔ اور بچوں کی لا علمی کا ذمے دار میں سو فیصد تربیت کرنے والوں کو سمجھتا ہوں۔ آپ ان کو موبائل فون دلاتے وقت بتاتے نہیں کہ بیٹا اس میں صرف لہو لعب ہی نہیں، علم بھی بہت ہے، مگر ہم تو خود لہو لعب میں یوں ڈوبے ہوئے ہیں کہ کچھ اہل نظر کو گزشتہ صدی کی طرح قرب قیامت کی نشانیاں ہر وقت نظر آتی ہیں۔