معمولی سی خواہش

علیشا پیر محمد

 

اس کی خواہش تھی بڑی کوچ (بس) میں سفر کرنا اور جب سے اسے دین محمد عرف دینو نے بڑی کوچ میں نظر آنے والے اِردگِرد کے نظاروں، قدرت کی رنگینیوں کے متعلق بتایا تب سے اس کی یہ خواہش اس کا جنون بن گئی تھی۔ 

کچی بستی میں رہنے والے اور کچرا چن کر گزر بسر کرنے والے اصغر عرف اچھو کی یہ چھوٹی بلکہ یوں کہنا ٹھیک رہے گا اک عجیب سی خواہش تھی بڑی کوچ میں بیٹھنا، کھڑکی سے باہر تانکا جھانکی کرنا، درختوں اور پہاڑوں کو پیچھے چھوڑنا، مسافروں کی نوک جھوک، بسوں میں غبارے اور کھلونے بیچنے والے بچے وہ ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں بس کی مہنگی ٹکٹ کے پیسے کہاں سے آئیں اور اگر پیسوں کا انتظام کر بھی لیا جائے تو کس رشتہ دار کے پاس جایا جائے۔ اس کے نزدیک سارے رشتہ دار تو یہاں کچی بستی میں ہی رہتے تھے۔

جب سے اس نے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو کچرا چنتے پایا باپ اس کا فارغ البیکار، نشے میں دھت رہتا نشہ کرنے کے بعد اول فول بکتا اور ان ماں بیٹے کی دھنائی کر دیتا۔ ماں اس کی بڑی کوٹھی میں جھاڑ پونچھ کا کام کرتی تھی۔ بایاں ہاتھ پیپ اور زخم سے بھرا ہوا تھا ناجانے کون سا زخم تھا جو بھرنے میں ہی نہیں آتا تھا اس طرح ان لوگوں کی زندگی کی گاڑی چل رہی تھی اور یوں اچھو کی سوچ کچی بستی سے ہی شروع اور اسی پر ختم ہو جاتی لیکن بھلا ہو دینو کا جو اچھو کے بچپن کا دوست تھا اور آج کل بڑی کوچ میں کنڈیکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ اس نے باتوں ہی باتوں میں اچھو کو نا جانے کیا کیا بتایا کہ وہ ہر وقت ہوش وخرد سے بیگانہ اپنے آپ کو کوچ میں کھڑکی کے پاس بیٹھتے ہوئے پاتا۔

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اس کی ماں نے اسے بلایا اور اس کی( دور پارکی) ماسی جو سرگودھا میں رہتی تھی بستر مرگ میں مبتلا تھی اس کے متعلق بتایا اور اپنے میلے کچیلے پلو کے اِک کنارے پر بنی ہوئی چھوٹی سی گٹھڑی کو کھول کر اپنی زندگی بھر کی تمام جمع پونجی اس کے ہاتھ پہ دھردی۔ اچھو کو تو جیسے ہفت اقلیم مل گیا ہو۔ اسے ماسی سے زیادہ بڑی کوچ میں سفر کرنے کی خوشی تھی۔ ساری رات وہ خوشی سے کروٹیں بدلتا رہا نیند کی دیوی تو جیسے روٹھ ہی گئی تھی۔ مرغے کی پہلی بانگ پر وہ بستر سے اترا، جلدی سے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے، لوہے کے آدھے زنگ لگے ہوئے صندوق جس کے قبضے ٹوٹے ہوئے تھے جنہیں باریک تار کی مدد سے بڑی مہارت سے جوڑا گیا تھا اسے کھولا، تہہ لگا ہوا اک جوڑا جو اپنی اصلی حالت کھو چکا تھا لیکن پہننے کے قابل تھا اسے نکالا، جلدی سے پہنا دونوں ہاتھوں سے اس کی سلوٹیں دور کیں، بالوں کو تیل سے چپڑا، چپل اڑسی، دو نوالے زہر مار کیے اور لاری اڈے کی طرف چل دیا۔

خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ اڈے میں اسے اس کی مطلوبہ کوچ مل گئی تھی۔ خوشی خوشی ٹکٹ لیا اور کھڑکی کے پاس جا بیٹھا۔ کبھی اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا اور کبھی اپنے کپڑوں کی نادیدہ سلوٹیں دور کرتا۔ اڈے میں بھانت بھانت کی بولی تھی کبھی کوئی بچہ مونگ پھلی، نمکو، ریوڑی کی ٹوکری لے آتا تو کبھی کوئی ماسک۔ اسے کسی چیز سے سروکار نہ تھا، بس جلدی تھی تو کوچ کے چلنے کی۔ سواریوں کے بیھٹتے ہی ڈرائیور نے پان کی پچکاری ماری اور بائیں کندھے پہ دھرے ہوئے سفید اور سرخ رنگ کی دھاریوں والے صافے جس پر جا بجا پان کے داغ تھے اسے منہ صاف کیا اور گئیر لگا دیا۔

کوچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی جیسے کسی بچھڑے ہوئے کو اس کا اپنا مل جائے یا کئی دن سے بھوکے کو کھانا۔ ٹھنڈی کھلکھلاتی ہوا، پیچھے رہتے درخت اور پہاڑ، ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے بادل، وہ ان سب سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور باہر کی جانب دیکھنے میں اس قدر مستغرق تھا کہ اسے مسافروں کی چیخ و پکارنے بھی اپنی طرف نہ کھینچا لیکن اچانک ان سب کی چیخ و پکار میں اس کی بھی چیخ شامل ہو گئی تھی۔

اگلے دن اخبار میں یہ خبر چپھی ’’لاہور سے سرگودھا جانے والی بس بریک فیل ہونے کی وجہ سے کھائی میں جا گری۔‘‘ یوں اصغر عرف اچھو کی یہ معمولی سی خواہش پوری ہو گئی تھی۔

a small wish of a small boystory of an unfortunate boy