کراچی: سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں عطیہ اعضاء کے عالمی دن کے موقع پر ویبنار کا انعقاد کیا گیا، یہ دن ہر سال 13 اگست کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد قیمتی انسانی جانیں بچانے کے لیے اعضاء کے عطیہ کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔
اس موقع پر ایس آئی یو ٹی کے طبی ماہرین نے اعضاء کی ناکارہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تشویش ناک صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد اعضاء کے ناکارہ ہونے سے انتقال کرجاتے ہیں، جس میں گردے ناکارہ ہونے کے 40،000، جگر کے 70،000 اور دل کے 15،000 مریض شامل ہیں۔
مقررین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دل، جگر، گردے، آنتیں، پھیپھڑوں، لبلبہ اور قرنیہ عطیہ کیے جاسکتے ہیں اور انہیں ایسے مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے جن کے اعضاء ناکارہ ہوچکے ہوں اور ان کی زندگی اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کے ذریعے بچائی جاسکتی ہو۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے "جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچالیا۔”
عطیہ کے اعضاء کے لیے عمر کی کوئی مقرر حد نہیں، اگر کوئی فرد جس نے اپنے اعضاء کے لیے وصیت کی ہو تو یہ صرف اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب وہ فرد خدانخواستہ ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر انتقال کرجائے تاہم قدرتی موت کی صورت میں قرنیہ، دل کے والوز، ہڈی اور جلد جیسے ٹشوز عطیہ کیے جاسکتے ہیں۔
ماہرین نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اب تک 10،383 افراد ٹرانسپلانٹ سوسائٹی آف پاکستان کی ویب سائٹ www.tx-society-pk.org اور
فون نمبر 284-429-111 پر رجسٹریشن کر واچکے ہیں۔ انہوں نے معاشرے میں بعد از مرگ عطیہ اعضاء کے بارے میں آگاہی کے لیے ایک مستقل لائحہ عمل پر زور دیا تاکہ مریضوں کی قیمتیجانیں بچائی جا سکیں ۔
پاکستان میں اب تک صرف 5 افراد بعد ازمرگ اعضاء عطیہ کرچکے جن میں نوید انور، محترمہ شمیم بانو ، پروفیسر رزاق میمن ، عمران شاہ اور ارسلان شامل ہیں۔ جبکہ قرنیہ دینے والوں میں معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اورمحترمہ ابان جمال شامل ہیں۔ یہ دونوں گردوں کی خرابی کے مریض تھے لیکن انہوں نے پھر بھی وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد ان کے ان کے اعضاء عطیہ کیے جائیں۔
مقررین میں ڈاکٹر مرلی دھر، ڈاکٹر سعدیہ نشاط اور ڈاکٹر فارینہ حنیف اور دیگر شامل تھے۔