سندھ پولیس منظم جرائم اور دہشتگردی کے خلاف جدید تربیت یافتہ کتوں کو میدان عمل میں لارہی ہے۔ سندھ پولیس کی جانب سے سراغ رساں کتوں کو بارودی مواد اور منشیات کی نشاندہی کرنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے. سراغ رساں کتوں کو مختلف مقامات پر ٹیم کے ہمراہ تعنیات کیاجائے گا "”کے نائن یونٹ” کے ان کتوں کی تعداد میں مستقبل میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔
آج کل یہ بحث عام ہوچکی ہے کہ انسان کی سلامتی ٹیکنالوجی پر اکتفاء کرنے پر ہے یا قدیم فطری طور طریقوں کو اپنانے میں ہے لیکن بات ہو اگر دہشتگردی یا منظم جرائم سے لڑنے میں پولیس کی حکمت عملی کی تو آج تک جہاں جدید ٹیکنالوجی اسلحہ ساز وسامان اور بہترین تربیت یافتہ فورس کی ضرورت پر زوردیا جاتا رہا ہے وہیں پولیس میں ہیومن انٹلیجنس یعنی مخبروں کا جال بچھانے،روایتی اور غیر روایتی طریقوں کو جاننے والے تفتیش کاروں کی تعیناتی کی اہمیت پر بھی زور دیاجاتا۔ کہتے ہیں دنیا میں تبدیلی کے علاؤہ کوئی چیز مستقل نہیں کئی دہائیوں سے ہونے والی پولیسنگ میں بھی کئی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ وقت کے ساتھ سامنے آنے والی نئی ٹیکنالوجی انسان کو نئی راہوں سے روشناس کررہی ہیں۔ آج بھی مخبر خاص کی اہمیت ہے لیکن ٹیکنالوجی بھی کسی ملزم کی گرفتاری میں بہت کار آمد ثابت ہوسکتی ہے، تفتیش کاروں کے روایتی مہارت کے علاؤہ کسی بھی ملزم کی ڈیجیٹل معلومات نے بھی پولیس کے کام کو مزید آسان بنادیا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کے یہ تربیت یافتہ کتے میدان عمل میں آکر کون سا کارنامہ انجام دیتے ہیں بحیثیت کرائم رپورٹرز میں جانتا ہوں کہ ایک کڑی کے ٹوٹ جانے کو ہی زنجیر ٹوٹ جانا کہتے ہیں میں نے کئی کیسز کو حل کرنے میں پولیس کو ہر طرح کے طریقے استعمال کرتے دیکھا ہے کئی موقعوں پر انتہائی کم اہمیت کی حکمت عملی پر بھی مکمل کامیابی ملی ہے اور کبھی کبھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بے سود ثابت ہوتے دیکھا ہے کیونکہ ملزم کتنا بھی چالاک ہو کوئی نہ کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جس کی بنیاد پر کڑی سے کڑی جڑتی چلی جاتی ہے اور پولیس ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ روایتی پولیس میں ٹکنالوجی کے استعمال اور ہیومن انٹلیجنس کے ساتھ کتوں کا "”کے نائن یونٹ'” وقت کی ضرورت ہے۔۔۔