شمالی سندھ کے کچھ اضلاع فاٹا کی طرح ہیں، جو کئی دہائیوں سے غیر آباد ہیں، ان اضلاع میں قبائلی دہشت گردی، اغوا اور دیگر جرائم کو کھلی چھوٹ ہے، مختلف قبائلی سرداروں کے مختلف خطے تشکیل دیئے گئے ہیں اور حکومت سندھ کے ماتحت کوئی قابلِ عمل اختیار نہیں ہے۔ایک سال قبل میں نے کشمور میں قبائلی دشمنی، روایتی جاگیرداری ، وڈیرا شاہی اور سرداری نظام پر رپورٹ شایع کیا تھا ، میں جانتا تھا کہ اس خونریزی کو روکا نہیں جائے گا۔ اور گزشتہ روز چاچڑ ، سبزوئی اور جاگیرانی قبائل کے مابین تصادم کی وجہ سے 10 افراد جانبحق اور متعدد زخمی ہوئے، یہ معاملہ مویشیوں کی چوری پر شروع ہوا۔یہاں کے سردار وں اور وڈیروں نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے سندھ کے معصوم لوگوں کو ذات پات اور سیاہ کاری کے تنازعات میں الجھا دیا ہے، وہ ان علاقوں میں نہ تو اسکول قائم کرتے ہیں اور نہ ہی ہسپتال اور نہ سڑکیں بنواتے ہیں، یہاں کے لوگ انتہائی غربت ، جہالت اور غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن جہاں اسکول اور ہسپتال نہیں ہیں وہاں جدید ترین ہتھیار ضرور ملیں گے جو پولیس کو بھی دستیاب نہیں ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ ہے کہ یہی سردار اور وڈیرے اسمبلی کے میمبر بھی ہیں، ان سرداروں نے اس جرگا نظام سے اتنا کمایا ہے کہ ان کی سیاسی طاقت بھی بڑھ گئی ہے، سرداروں اور وڈیروں نے اس پورے معاشرتی نظام کو ہائی جیک کرلیا ہے۔
چونکہ یہ نظام سندھ کو جاہل رکھنے کا ایک بہت بڑا عنصر ہے۔پولیس کی مطابق وہ براہ راست قبائلی دشمنی میں مداخلت نہیں کرتے۔ صرف سرداروں اور وڈیروں کو قصوروار ٹھہرا کر ہم عام عوام کو بھی معصوم قرار نہیں دےسکتے، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عام آدمی بھی تھوڑی سی طاقت آ نے پر اپنی انا اور ضد میں آ کر قتلِ عام کر رہا ہے، عام آ دمی کے اس ظلم اور جبر کے نتیجے میں مظلوم آ دمی اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں اشتعال انگیزی پر اُتر آ تے ہیں اور نتیجہ اس طرح کے بھیانک نتائج میں نظر آ رہا ہے۔
جب شعور اور آ گہی نہیں ہوگی ایسے نتائج برآمد ہوں گے۔ اب کچھ عرصے تک اور بھی لوگ مریں گے پھر سردار فیصلے کریں گے، خون کے بدلے میں اور خون بہے گا اور آ خر میں ازالہ بھی غریب آدمی ادا کرے گا جس میں سے آدھا حصہ سرداروں اور وڈیروں کے پیٹ میں جائے گا، پھر چاہے مظلوم کو انصاف ملے یا نہ ملے! اور نتیجتاً ایسے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔
سردار ی اور جاگیرداری ایک شرمناک سلسلہ ہے جوسندھ کو جہالت کی طرف دھکیل رہا ہے اور قانون کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں لیے اپنے علاقے کے کمزور طبقات پر اپنے جبری فیصلے نافذ کرتا ہے۔