اسلام آباد: عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کو رہا کرنے اور گرفتاری واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل اور ڈی سی اسلام آباد بھی موجود تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، فرخ حبیب، قاسم سوری اور زلفی بخاری بھی عدالت عالیہ پہنچے جب کہ کمرۂ عدالت پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں سے بھر گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری آپ کے ساتھ جو ہوا وہ افسوس ناک ہے، جب آپ حکومت میں تھیں تو اس سے زیادہ برے واقعات ہوئے، اسلام آباد سے جبری گمشدگیاں ہوئیں، کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پرایکشن نہیں لیا، جب آئین کااحترام نہیں ہوگا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ ہرحکومت کاآئینی خلاف ورزیوں پرافسوس ناک رویہ ہوتا تھا۔ رکن اسمبلی آج بھی جیل میں ہیں، افسوس ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا جاتا رہا، جب تک انکوائری نہیں ہوتی شیریں مزاری کو رہا کیا جائے اور آئی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں۔
شیریں مزاری نے کہا کہ پولیس والوں نے مجھے گاڑی سے گھسیٹا، پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے، میں 70 سالہ اور بیمار ہوں، پولیس تشدد کی پوری ذمے دار ہے۔ مجھے یہ لاہور لے کر جارہے تھے، پوری قوم چوروں کے خلاف نکلی ہوئی ہے کس کس کو گرفتار کروگے، مجھے گرفتاری کے دوران کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا، گرفتاری کے دوران مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے ناخن توڑ دیے، شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ نے مجھے گرفتارکرایا۔ میرا فون ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، آج جبری گمشدگی کو خود محسوس کیا، میں نے پولیس کو بیٹی کو کال کرنے کا کہا اس کی بھی اجازت نہ ملی۔
شیریں مزاری نے کہا کہ اس بار کالی ویگو نہیں تھی لیکن سفید ٹویوٹا تھی، موٹروے پر چڑھے تو میں نے پوچھا کہاں لے کر جا رہے ہیں، انہوں نے کہا شاید آپکے گاؤں راجن پور لے جائیں یا لاہور لے جائیں، انہوں نے کہا کہ آپ پر کرپشن کا کیس ہے، میں نے انہیں کہا مجھے کاپی تو بھیجتے، ایک گھنٹہ ہم چکری میں رکے رہے، ایک گھنٹے بعد ایک شخص آیا اور کہا گیا یہ ڈاکٹر ہے، انہوں نے کہا یہ معائنہ کریں گے آپ سفر کر سکتی ہیں یا نہیں، میں نے کہا یہ مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا تو وہ واپس چلا گیا، مجھے راستے میں بتایا گیا کہ آپ کو واپس لے جارہے ہیں، میں چاہتی ہوں اس واقعے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کریں۔