کراچی: آج سندھی اور اردو کے ممتاز شاعر شیخ ایاز کی 23 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ شیخ ایاز کی شاعری میں مزاحمت کے ساتھ حسن اور فطرت کے کمال رنگ ملتے ہیں، وہ پیدا تو سندھ کے خوبصورت شہر شکارپور میں ہوئے لیکن ان کی پرواز عالمگیر سطح کی تھی ۔
شیخ ایازنے اپنی شاعری میں دھرتی کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی، شاہ عبداللطیف کی طرح انہوں نے بھی پورے عالم کی خیر مانگی۔ شیخ ایاز نے سندھی شاعری کی تمام اصناف میں جدت پیدا کی اور وقت بوقت وہ نت نئے تجربات بھی کرتے رہے۔
2 مارچ 1923 ع کو شکارپور میں شیخ غلام حسین کے گھر میں جنم لینے والے مبارک علی نے آگے چل کر پوری دنیا میں شیخ ایاز کے نام سے شہرت حاصل کی۔
شیخ ایاز نے پرائمری سے انٹر تک اپنے ہی شہر میں تعلیم حاصل کی، ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کی ڈگری لی۔ 1947-48 میں ایل ایل بی کرکے وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
شیخ ایاز کا شروع سے ہی شاعری کی طرف رجحان تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچپن میں ہی شعر لکھنے شروع کردیے تھے جو اس وقت کے رسائل، جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔
شیخ ایاز سندھی ادبی سنگت کے علاوہ مختلف اداروں، اخبارات اور رسائل میں اہم عہدوں پر رہے۔ 1976 میں انہیں سندھ یونیورسٹی جامشورو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
شیخ ایاز نے سندھی ادب کے دامن میں سیکڑوں کتابیں ڈالیں، ان کی مشہور کتابوں میں بھنور بھرے آکاس، جے کاک ککوریا کاپڑی، اکن نیرا پھلیا، راج گھاٹ پر چاند، ساہیوال جیل کی ڈائری، پن چھن پجانان اور دیگر شامل ہیں جب کہ انہوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے اور انگریزی سمیت مختلف زبانوں کے ادب سے کئی کتابیں ترجمہ کرکے سندھ ادب کے نام کیں۔
شیخ ایاز سندھی اور اردو دونوں زبانوں میں اظہار کی بے مثال تخلیقی صلاحیت رکھتے تھے۔ ’بوئے گل نالہ دل‘ کے نام سے جولائی 1954ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا اردو مجموعہ کلام ہے، اس کے بعد نیل کنٹھ اور نیل کے پتے شایع ہوئی۔
’حلقہ میری زنجیر کا‘ ان کی شاعری کا اردو ترجمہ ہے جسے اردو کی نامور شاعرہ فہمیدہ ریاض نے نہایت خوش اسلوبی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خطوط پر مشتمل مجموعہ بھی ہے۔
شیخ ایاز تخلیقی اظہار کی بے پناہ صلاحیتوں کے حامل فن کار تھے اور جدید نظم و نثر کی جملہ اصنافِ ادب میں نت نئے تجربات کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ چنانچہ جدید سندھی ادب کے متعدد پہلوؤں پر ان کی تخلیقی شخصیت کا پرتو صاف دکھائی دیتا ہے۔
جدید سندھی افسانے کے باب میں بھی وہ اس ہراول دستے میں شامل رہے ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد شیخ ایاز آہستہ آہستہ افسانہ نگاری سے دور ہوتے چلے گئے اور شاعری پر تمام تر توجہ مرکوز کی، انہوں نے آنے والے چند عشروں میں اپنے شاعرانہ کمالات سے سندھی ادب میں انمٹ نقوش چھوڑے۔
شیخ ایاز کی لازوال قلمی محنت کے صلے میں انہیں کئی قومی اور عوامی اعزازت سے بھی نوازا گیا جب کہ مزاحمتی شاعری پر انہیں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔
شیخ ایاز چونکہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے، اس لیے انہوں نے اپنی زندگی کے کئی برس سکھر میں وکالت کرتے ہوئے گزارے۔ عمر کے آخری ایام میں وہ کراچی میں آباد تھے، جہاں وہ دل کی تکلیف کے ساتھ مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ان بیماریوں سے لڑتے ہوئے ان کی سانس اچانک ان کا ساتھ چھوڑگئی اوروہ 28 دسمبر 1997 کو اس فانی جہان سے کوچ کرگئے، ان کو بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ سندھی ادب شیخ ایاز کی لازوال محنت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔