شہید بے نظیر بھٹو۔۔۔ عہد ساز شخصیت

بلال ظفر سولنگی

یوں تو جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن اس جہان فانی سے کوچ کرجانا ہے، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت پاکستان کے مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کی امیدوں کی وہ آخری کرن تھی جس کا مداوا شاید کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے نہ صرف مملکت پاکستان میں بلکہ دنیائے عالم میں ان کی کمی کو نہایت شدت کے ساتھ اٹھارہ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ شہید محترمہ کودنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار آدا کیا تو شہید بی بی نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا۔ یہ دونوں ایسے کام ہیں جس کے سبب پاکستان دشمن قوتیں سراسیمہ ہیں اور پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہیں۔ 28 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے جسد خاکی کو ان کے شوہر اور بچوں کی موجودگی میں چکلالہ ایئربیس پر موجود خصوصی طیارے کے ذریعے سکھر ایئرپورٹ پہنچایا جاتا ہے جہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جسد خاکی کو آخری آرام گاہ گڑھی خدا بخش میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کے پہلو میں دفنادیا جاتا ہے۔
اس موقع پر مشتعل عوام کے غم و غصہ کو قابو میں رکھنا ایک انتہائی مشکل کام تھا، محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری نے تدفین کے بعد اپنے حواس کو قابو میں رکھ کر جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور بی بی کی جدوجہد کو آخری دم تک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے عوام کے لیے ایک بڑا سانحہ تھی، دنیا بھر کے حکمرانوں، عوام بشمول تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بے نظیر بھٹو کے خاندان سے ان کی شہادت کے حوالے سے تعزیت کی، ایسا لگتا تھا کہ ملک میں اب غم کے بادل چھائے رہیں گے۔
بی بی شہید کی طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد کے موقع پر کراچی سے خیبر تک عوام کے چہروں پر خوشی تھی کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ بینظیر ہی وہ واحد لیڈر ہیں، جن کے ملک میں آنے کے بعد آمریت کا طویل دور اختتام پذیر ہوگا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اس وقت چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ رنگ، نسل، عقائد اور کسی بھی قسم کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد بھی ہر سیاسی تنظیم کا لیڈر چاہے اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہو یا پھر کسی اور جماعت سے سب ہی محترمہ کی قائدانہ صلاحیتوں کی ہر فورم پر تعریف کرتے ہیں۔
جب بینظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر2007 کو سرزمین پاکستان پر قدم رکھا تو اس روز کراچی ایئرپورٹ پر طیارہ لینڈ ہونے کے بعد بی بی کو حکومت وقت کی جانب سے پیغام پہنچایا گیا تھا کہ آپ کراچی ایئرپورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بلاول ہاؤس چلی جائیں، لیکن انہوں نے حکومت وقت کی اس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا، کیونکہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شارع فیصل سے لے کر مزار قائد اور حتیٰ کہ کراچی کی تمام اہم شاہراہوں پر بی بی کا استقبال کرنے کے لیے ان کی آمد کا منتظر تھا اور بی بی عوام کو ہرگز مایوس نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
عوام کے اندر جوش، ولولہ اور چہروں پر خوشی عیاں تھی۔ مرد، عورتیں، بچے اور بزرگ سب ہی بی بی کا استقبال کرنے کے لیے ان کے ایئرپورٹ سے باہر آنے کی راہ تک رہے تھے۔ طیارہ سے باہر آنے کے بعد بی بی کچھ لمحہ کے لیے آبدیدہ ہوگئیں، کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس پہنچی تھیں، پھر کچھ دیر بعد بی بی دیگر پارٹی قائدین کے ساتھ ٹرک میں سوار ہوکر بلاول ہاؤس جانے کے لیے روانہ ہوئیں، لاکھوں افراد کی موجودگی کی وجہ سے قافلہ بہت سست رفتاری سے براستہ شاہراہ فیصل اپنی منزل (بلاول ہاؤس) کی جانب رواں دواں تھا۔ بی بی اپنی جان کی پروا کیے بغیر ٹرک پر بنائے گئے اسٹیج سے وقتاٌ فوقتاٌ خطاب کررہی اور نعروں کا جواب بھی دے رہی تھیں۔
خطاب کے دوران بی بی کا کہنا تھا کہ میں یہاں پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے آئی ہوں، خواہ اس جدوجہد میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے، میں اس جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ آخرکار قافلہ کارساز کے قریب پہنچا اور تھوڑی ہی دیر بعد یکے بعد دیگرے دو زوردار دھماکے ہوئے، دھماکے عین اس مقام پر ہوئے جہاں عوام کا ہجوم موجود تھا، اس وجہ سے جانی نقصان بہت زیادہ ہوا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دھماکے میں 177 افراد جاں بحق اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود بی بی کے حوصلے پست نہ ہوئے اور وہ سانحہ کے دوسرے ہی دن زخمیوں کی عیادت اور شہداء کے خاندان سے تعزیت کے لیے نکل گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بی بی نے خطرات کی پروا کیے بغیر انتخابی مہم کو جاری و ساری رکھا۔ اسی جوش و جذبہ کو جاری و ساری رکھتے ہوئے محترمہ نے 27دسمبر کو پاکستان کے تاریخی مقام لیاقت باغ راولپنڈی سے عوام سے خطاب کا فیصلہ کیا اور یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ثابت ہوا، پُرہجوم جلسہ گاہ سے واپسی کے دوران قاتلانہ حملہ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو نے جام شہادت نوش کیا اور یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ بدترین خون آشام دن تھا، جس کے نتیجے میں ملک و قوم پر تاریکی کے سیاہ بادل منڈلانے لگے، جس کے اثرات آج بھی ملک و قوم پر واضع محسوس ہورہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے لے کر آج تک اٹھارہ برس گزرنے کے باوجود ایسا کوئی بھی سیاسی رہنما نہیں، جس پر پوری قوم متفق ہو۔ 27 دسمبر کا یہ سانحہ دنیا کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ ہر سال بی بی کی شہادت کی یاد بھرپور طریقے سے منائی جاتی ہے اور شہید بی بی کے جاں نثار اپنے لہو سے شمعیں روشن کرتے ہیں۔

Former Prime Minister of PakistanMartytred DayPPP LeaderShaheed Benazir Bhutto