شاہ عبداللطیف بھٹائی کو عالمی ادارے یونیسکو نے حال ہی میں عالمی ادب میں شامل کرنے کی شفارش کی ہے اور شاہ لطیف کو عالم انسانیت کا شاعر تسلیم کیاہے۔
ویسے شاہ لطیف کی شاعری کو کسی عالمی ادارے کی سند کی ضرورت تو نہیں ہے انہوں نے ساڑھے تین سو برس قبل بھی اپنی شاعری میں کئی مقامات پر پورے عالم کو آباد رکھنے کی دعا کی ہے۔ سندھ کے خطے کے چھوٹے سے گائوں ہالا حویلی میں ولادت پانے والے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی جوانی میں وہ کمال کی شاعری کی جو آج کے دور میں مشعل راہ کی حیثیت میں موجود ہے اور دنیا کے کئی محققین نے شاہ لطیف سترہویں صدی کا مفکر قرار دیا ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں ویسے تو زندگی کا ہر پہلو سُروں کی صورت میں ملتا ہے کیونکہ شاہ لطیف بنیادی طور پر صوفیانہ انداز میں اپنا کلام گاتے تھے اور شاہ جو کلام قدیم انداز میں گانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
شاہ لطیف تنبورہ (یکتارہ) کے موجد ہیں اور شاہ کے فقیر تنبورہ کے ساتھ شاہ لطیف کے انداز میں ہی بھٹ شاہ پر شاہ لطیف کے مزار کے آنگن میں شاہ جو رسالو ( شاہ کا رسالہ ) سے کلام منتخب کرکے گاتے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام میں واقعہ کربلا کا ذکر ایک الگ تھلگ انداز میں موجود ہے۔ شاہ لطیف نے واقعہ کربلا کے پس منظر میں ایک پورا سُر لکھا ہے جس کی کئی داستانیں ہیں۔ “کیڈارو” شاہ کے کلام میں وہ سُر ہے جس میں حضرت امام حسین۔ ان کے رفقائے کار کی کربلا آمد سے لے یوم عاشور تک کا ذکر موجود ہے۔ شاہ لطیف اپنی شاعری میں مدینہ سے کربلا تک کے سفر کی بھی منظر نگاری کرتے ہیں۔
میر مدینے سے نکل کر ہوا روانہ سفر پر
اور پھر حضرت امام حسینؒ کا قافلہ جہاں جہاں بھی رکا شاہ لطیف نے اپنی شاعری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور جب قافلہ کربلا کے مقام پر پہنچتا ہے تو شاہ لطیف اس طرح منظر بیان کرتے ہیں۔
کامل کربلا میں آئے جُنگ جوان
دھرتی لرز گئی تھی اور کانپ گیا آسمان
کمی کوئی نہیں تھی تھا نظارہ عشق کا
اس طرح کے بہت سارے اشعار ملتے ہیں جن کو پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی خود میدان جنگ میں موجود ہوں۔ انہوں نے حضرت امام حسین اور ان کے رفقا کی بہادری اور جرئت کو شایان شان انداز سے سُر کیڈارو میں بیان کیا ہے۔
اے بہادر فتح چاہتے ہو تو دل کے سارے وہم بھُلا دو
بھالے مارتے رہو دوبدو لڑتے اپنا ڈھال مت گرنا
اور اوپر تیز تلوار مارو گے تو فاتح کہلاؤ گے
شاہ عبداللطیف بھٹائی اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے دوران دولہے حضرت امام قاسم کی شادی اور پھر شادی کے دوران لڑائی کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں دولہے کم دن جیتے ہیں۔
گھوڑے اور دولہے کم دن جیتے ہیں
کبھی محلاتوں میں تو کبھی راہی رَنَ کے
حضرت شاہ لطیف نے واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین کی شہادت کو بڑے رنج و الم کے ساتھ بیان کیا۔
شاہ لطیف کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا کوئی عام بات نہیں یہ قدرت کی طرف اسرار کی گہری بات اور گہری قربانی ہے۔
دوست قتل کروا کر اپنے مُحب کو مروا کر
خاص خلیلوں کو سختیاں برداشت کرواکر
اللہ الصّمَد بے نیاز جو چاہے وہ کرے
اس میں بھی ہے کوئی گہری بات اسرار کی
شاہ عبد لطیف بھٹائی کی شاعری اور سُر کیڈارو کو سندھی ذاکرین مجالس میں بھی بیان کرتے ہیں اور محرم الحرام کے دوران بھٹ شاہ پر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے راگی فقیر بھی جو کلام گاتے ہیں وہ سُر کیڈارو سے ہی منتخب کرتے ہیں۔ شاہ لطیف کی شاعری میں سُر کیڈارو کو پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاہ لطیف نے واقعہ کربلا کو تاریخ میں بہادری۔ حق سچ اور اپنے دور کی انقلابی جنگ قرار دیا ہے۔