شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ اور پاکستان کے ہی نہیں، بلکہ دنیا کے معروف شعرا میں سے ایک ہیں۔ ایک کتاب جس کا نام ’موسیٰ پروگینزا‘ ہے۔ اس میں دنیا کے دس شعرا کو شامل کیا گیا ہے، جس میں صفِ اوّل میں شاہ لطیف کا نام درج ہے۔
شاہ لطیف الہامی شاعر تھے۔ ان کا کلام تیس سروں پر مشتمل ہے۔ ہر ایک سُر میں مکمل داستان بیان کی گئی ہے۔ ان تیس سروں کو ملاکر جو کتاب بنتی ہے اسے ’’شاہ جو رسالو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کتاب شاہ عبدللطیف بھٹائی کی خاص پہچان ہے۔ شاہ جو رسالو کا منظور اردو ترجمہ سندھ کے بڑے شاعر اور ادیب شیخ ایاز نے کیا ہے۔ اس ترجمے کو انہوں نے "مہران رنگ” کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں سب سے پہلی داستان کا پہلا سُر ’’سر کلیان‘‘ ہے۔ جس میں علمِ معرفت، اعلیٰ مقصد حاصل کرنا، شک اور شرک کے بجائے یقین، آرام کی بجائے بے آرامی، تسکین کی بجائے تڑپ اور بے تابی، توحید اور رسالت کے حوالے سے انسان کے عقیدے کی صفائی اور کائنات کی وحدت کا راز سمایا ہوا ہے۔
شاہ لطیف نے اس سُر میں چار نوجوانوں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ موکی کے پاس میخانے میں اکثر و بیشتر شراب نوشی کے لیے جایا کرتے تھے۔ موکی کے میخانے کی شراب بہت دور دور تک مشہور تھی۔ ایک دن وہ میخانے میں پہنچے اور موکی سے عمدہ شراب طلب کی لیکن بد قسمتی سے اس دن وہاں شراب موجود نہیں تھی۔ ان نوجوانوں کے اصرار پر وہ کسی نہ کسی صورت پرانے مٹکے میں رکھی شراب ڈھونڈ لائی اور ان کے سامنے رکھ دی۔ وہ چاروں ہی نوجوان بہت خوش ہوئے۔ شراب لے کر موکی کو دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ موکی کے میخانے میں پھر سے حاضر ہوگئے اور ویسی ہی شراب طلب کی۔ لیکن اس بار موکی نے معذرت کرتے ہوئے سارا ماجرا سنا ڈالا کہ در اصل اس مٹکی میں مرا ہوا سانپ تھا لیکن بر وقت آپ کو بتا نہ سکی۔ یہ سن کر ہی چاروں نوجوان دم توڑ گئے۔ کہتے ہیں کہ ’’سانپ نہیں ڈستا لیکن سانپ کا ڈر ڈستا ہے۔‘‘ وہ یہ سنتے ہی اس دنیا سے چل بسے۔ ان چاروں نوجوانوں کے متعلق ’سُرکلیان‘ میں شاہ لطیف نے فرمایا ہے کہ: مَتارا مَرِي وَيا، موکِي تون ڀي مَرُتنهنجو ڏک ڏَمَرُ، ڪونه سَهَندو اُنِ رَيَ۔ ترجمہ: اس شعر میں شاہ سائیں نے کہا ہے کہ چاروں ہی نوجوان مر گئے۔ موکی اب تو بھی مرجا۔ تیرا دُکھ ان کے سوا اور کوئی نہیں برداشت کرپائے گا۔
شاہ لطیف نے نوجوانوں کے جذبات و احساسات محبت اور ملاپ کے حوالے سے جو سُر تخلیق کیا ہے اسے ’’سُر کنبھات‘‘ کہتے ہیں۔ اس سُر میں آپ نے محبت اور محبت کی اعلیٰ قدروں کا بیان دلگداز انداز میں بیان کیا ہے۔ اس سُر میں محبت اور پیار کا فلسفہ، فکر اور روحانی راز جس مثبت انداز میں بیان کیا ہے وہ ایک اعلیٰ مثال ہے۔ شاہ لطیف نے محبوب کو چاند کی طرح حسین نہیں کہا۔ وہ چاند ستاروں کو اپنے محبوب سے کمتر محسوس کیا ہے۔ سُر کنبھات میں شاہ لطیف کہتے ہیں کہ: چَنڊَ چوانءِ تو حَقُ، مَرُ مُٺئين ڀائين،ٻَه اَکِيِون ٽِيون نَڪُ، ناهي پيشانِي پِرينءَ جي۔ ترجمہ: اے چاند! میں تمہیں سچ بتائوں گا پھر چاہے تمہیں برا لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم میں دو آنکھیں تیسرا ناک اور ماتھا ایسا نہیں جیسے میرے محبوب کے ہیں۔
ایک سُر جس کا نام ’سُر کا پائتی‘ ہے۔ اس سُر میں لطیف سرکار نے ان نوجوان عورتوں کی عکاسی کی ہے جو محنت و مشقت سے چکی پیستی ہیں اور چرخہ کاتتی ہیں۔ اس پیشے میں اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ چرخا کاٹنے والا نوجوان اپنے پیشے اور ہنر و مہارت پر غرور بالکل بھی نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لطیف سائیں نے ایک شعر میں نوجوانوں کے لیے کہا ہے کہ: جِني ڀئريو هيڪلي، تِني مِيڙئو ماءِ،ننڊ اهڙي ساءِ، مون آتَڻ هڏ نه اُجهي۔ ترجمہ: جو نوجوان عورتیں تنہائی میں چرخا کاٹتی ہیں اور دکھاوے سے دور رہتی ہیں تو وہی عورتیں اپنے کام میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔
ایک اور ’سُر پرجھاتی‘ میں شاہ صاحب نے نوجوانوں کی خصلت میں دو باتیں عیاں کی ہیں۔ ایک دکھاوا، دوسری سخاوت۔ شاہ صاحب نے اس سُر میں موروثی منگتوں، سپیروں اور سخی سرداروں کے گانے بجانے اور دان لینے والی رسم و روایت کی تصویر کشی کی ہےاور لس بیلے کے نوجوان سردار سبئو جام کی سخاوت کا ذکر کیا ہے۔ ایک شعر میں شاہ صاحب نے فرمایا ہے، "طَمَعَ جي توار، متان ڪرين مگڻا، ڌِڪي ڪَندئي ڌار، ماڻِڪَ ڏيئي مُٺِ ۾۔ ترجمہ: اے نوجوان منگتے! زیادہ کی طلب مت کر۔ ایسا نہ ہو کہ زیادہ کی طلب اور حرص جوہری سے تمہیں دور کردیں۔ کیونکہ ان کو پرکھ ہے کہ تم کس نیت سے مانگ رہے ہو۔
ایک اور ’سُر "کوھیاری‘‘ میں شاہ صاحب نے بہت بڑا پیغام دیا ہے۔ اس سُر میں سسی پنوں کی داستان کے حوالے سے اشعار کہے گئے ہیں۔ شاہ صاحب کے اس شعر میں نوجوانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ: "جَڏَهن ستيون جي، پٿر پير ڊگها ڪري، تَڏَهن تني کي، سات ستي ڇڏيو۔ ترجمہ: اے نوجوان، غفلت اور آرام کی نیند سے دور رہ، ورنہ منزل دور چلی جائے گی۔’
’سُر ماروی‘‘ میں شاہ صاحب نے نوجوانوں کے لیے وطن سے محبت کے جذبے کی عکاسی کی ہے۔ ماروی جو غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری طرف امیر کبیر نوجوان عمر ہے جوماروی کو اغوا کرکے عیش و عشرت کے لوازمات سے نوازتا ہے، لیکن وہ نوجوان لڑکی ان سب لوازمات کو ٹھکراکر اپنے گائوں کے جھونپڑے کو ترجیح دیتی ہے۔ شاہ صاحب اپنے شعر میں فرماتے ہین: واجهائي وطَنَ کي، ساري ڏيان ساههُ، بُتُ مُنهِنجو بَندَ ۾، قَيدِ مَ ڪَريجاههُ۔ ترجمہ: اگر میں عمر کے قلعے میں مرجائوں تو میرا جسم میرے گائوں بھجوا دینا۔ شاہ عبداللطیف اس سُر میں نوجوانوں کے لیے خاص پیغام دیتے ہیں کہ جو نوجوان اپنے ملک اور وطن سے سچائی نہیں رکھتے وہ بھٹکے ہوئے ہیں جیسا کہ عمر ہے۔
اگر شاہ صاحب کے ہر ایک سُر یعنی داستان پر تبصرہ کیا جائے تو پوری کتاب تیار ہوجائے گی۔ مختصر یہ کہ ان سُروں میں جیسے ’’سوہنی میہار‘‘ ہے اس میں سوہنی جو ایک خوبصورت نوجوان لڑکی ہے جو کہ آدھی رات کے سیاہ پل سے دریا پار کرکے اپنے محبوب تک پہنچتی ہے۔ اور کامیابی حاصل کرتی ہے اس نوجوان لڑکی کی ہمت اور جدو جہد کو شاہ صاحب نے خوب سراہا ہے اور کہتے ہیں کہ: سِياري سه رات ۾ جا گهڙي وسندي مينھن جن کي راتو ڏينهن ميهار ئي من ۾۔ ترجمہ: سوہنی ایک نوجوان عورت ہے وہ اپنا گھڑا لے کر سیاہ رات میں پلا دریاں کے پار جاتی ہے اور اسے رات دن اپنے میہار(محبوب) ہی کی پرواہ رہتی ہے۔ جسے ہر وقت اور ہر پل یاد کرتی رہتی ہے۔
شاہ صاحب کے کلام میں زندگی کے ہر پہلو پر غوروفکر ملتا ہے۔ شاہ جو رسالو میں زندگی گزارنے کا بہترین فلسفہ موجود ہے۔ انسانی احساسات و جذبات کا ہر پہلو آپ کے کلام میں شامل ہے۔ آپ کے کلام میں نوجوانوں کے لیے نا صرف پیار و محبت کا عنصر ملتا ہے بلکہ زندگی کے متعلق بہت سے ایسے عناصر ہیں جو آپ کے کلام میں موجود ہیں، جیسا کہ محنت، مشقت، جدو جہد، خلوص، جان کا نذرانہ، قربانی، سر قلم کرنا، امیری اور غریبی، محبت و فریب، حب الوطنی۔ یہ آج کے اس جدید دَور کے نوجوانوں کے لیے بھی سبق آموز نکتے ہیں۔ جن سے سیکھ کر اور عمل کرکے اپنی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ شاہ صاحب کے کلام میں جو پیغام ہے وہ کلھوڑا دَور سے لے کر دورِ حاضر تک کے نوجوانوں کے لیے ایک خاص تحفہ ہے اور نوجوانوں کی زندگی کو روشن کرنے کے لیے بہترین پیغام بھی ہے۔