بون: ڈپریشن کے دوران دماغ میں ایسی تبدیلیاں ہوتی ہیں جنہیں روایتی بایومارکر کے ذریعے سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی درست کہ ہر مریض کی کیفیت اور علامات مختلف بھی ہوسکتی ہیں۔
لیکن اب جرمنی کے شہر بون یونیورسٹی کے اسپتال میں سائنس داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈپریشن کا براہِ راست اثر بھوک میں تبدیلی کرتا ہے یعنی اکثر اوقات بھوک کم ہوجاتی ہے اور بسااوقات بڑھ بھی سکتی ہے اور اس کا گہرا تعلق دماغی نظام پر ہوتا ہے۔ یہ ساری تحقیق جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے نفسیات سے وابستہ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے کئی روپ ہوتے ہیں، یہ عمل کرنے کی تحریک پر اثر ڈالتی ہے، تو کہیں جذبات اور احساسات متاثر کرتی ہے۔ ڈپریشن کے مریض کسی محنت اور اس کے پھل میں بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ کچھ مریضوں نے بتایا کہ ڈپریشن میں ان کی بھوک بڑھتی ہے اور کچھ نے کمی کی شکایت بھی کی ہے۔
یونیورسٹی اسپتال بون اور جامعہ ٹیوبنجن کے ماہرین نے مشترکہ طور پر یہ تحقیق کی ہے جس میں مریضوں کے دماغ کا ایم آر آئی کیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن سے بھوک اور خوراک کی چاہت پر فرق پڑسکتا ہے۔ اس تحقیق میں کئی مریضوں میں ڈپریشن اور بھوک کے متعلق سوالات کیے گئے اور اسی دوران دماغی اسکین بھی لیے گئے۔ اس کے علاوہ دماغ کے مختلف گوشوں کے درمیان فنکشنل روابط بھی نوٹ کیے گئے۔ بالخصوص دماغ میں کسی شے کی طلب کا رویہ بھی دیکھا گیا۔
کئی مریضوں میں دیکھا گیا کہ ڈپریشن سے بھوک اڑ گئی تو کچھ مریضوں میں بھوک بڑھ بھی گئی۔ جب ان کا دماغی تجزیہ اور اعصابی کنکشن دیکھے گئے تو ماہرین اس قابل ہوگئے کہ وہ ڈپریشن کی صورت میں بتاسکتے ہیں کہ کس شخص کی بھوک کم ہوگی یا کس مریض کی بھوک بڑھ سکتی ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھوک میں کمی بیشی کو دیکھ کر کسی مریض میں ڈپریشن کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس تحقیق کے بعد دماغ کی نیوروموڈیولیشن اور ماڈلنگ میں مدد ملے گی جس سے ڈپریشن کو سمجھنا ممکن ہوگا۔