ویکسین کے انتظامات اور طریقۂ کار کی تعریف سن لی ہو تو متعلقہ ادارے میرے کچھ سوال بھی پڑھ لیں۔ یہ سوال ہر سوچنے سمجھنے والے کے ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا اہم سوال یہ ہے کہ اس ویکسین کی عمر کتنی ہے؟ یعنی کتنے عرصے بعد یہ غیر مؤثر ہوجائے گی۔ اس کا درست جواب ابھی تک معلوم نہیں، اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی ویکسین لگانے کے بعد اتنا وقت کسی بھی فرد پر نہیں گزرا کہ اس کی جانچ کی جاسکے، لیکن ویکسین بنانے والوں اور ڈاکٹروں کا کوئی غالب گمان تو بہرحال ہوتا ہے۔ وہ کتنی مدت ہے؟ یہ بھی علم نہیں۔ ایکسپو سینٹر لاہور کے پیرامیڈیکل اسٹاف سے پوچھنے پر اس کا جواب ملا کہ یہ ویکسین ساری عمر کیلئے کافی ہے۔ ڈاکٹر سے پوچھنے پر اس کا کہنا تھا کہ 18 ماہ یا 2 سال، لیکن اس نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ابھی تحقیق جاری ہے اور حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وزارت صحت اور متعلقہ اداروں کو بہرحال یہ وضاحت کرنی چاہیے۔ امریکی ویکسین کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس کی عمر صرف تین ماہ ہے لیکن حتمی بات ابھی کچھ معلوم نہیں۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد انسان خالی ہاتھ ہال سے نکلتا ہے۔ متعلقہ کاغذ بھی وہیں رکھ لیا جاتا ہے۔ اس لیے بعد میں یہ کیسے ثابت کیا جائے گا کہ اس نے فلاں تاریخ کو ویکسین لگوالی تھی۔ بظاہر آنے والے وقتوں میں سفر کے لیے نیز دیگر معاملات میں ویکسین سرٹیفکیٹ ضروری بلکہ لازمی ہوگا۔ ممکن ہے دوسری ڈوز کے بعد ایسا کوئی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں بتایا نہیں گیا۔ فی الحال یہ بات معلوم نہیں۔ اس لیے ویکسین لگوانے والوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر کے دستخط کے بعد متعلقہ فارم کی ایک تصویر کیمرے میں محفوظ کرلیں۔ یہی ہدایت ہمیں پیرامیڈیکل اسٹاف نے کی تھی جو فائدہ مند رہی۔
اب آئیے پرائیویٹ ویکسین امپورٹرز کی طرف۔ یہ بات تو واضح ہے کہ بزرگوں سے نوجوانوں تک اور پھر کم عمروں تک آتے آتے سرکاری ویکسین کو بہت وقت لگے گا۔ اس لیے حکومت نے ضرورت کا احساس کرتے ہوئے نجی شعبے کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی تاکہ جو چاہے، خواہ کسی بھی عمر کا ہو، ویکسین جلد لگوا سکے اور اس درآمد پر کاروباری منافع بھی طے کردیا تھا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ ایک نجی کمپنی نے روسی ویکسین سپوتنک کافی تعداد میں منگوالی ہے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں جہاں کمپنی کے نمائندے اور اسد عمر بھی موجود تھے، امپورٹر نے کہا کہ کمپنی کی لینڈنگ کاسٹ چھ ہزار (دو ڈوز) سے اوپر ہے اور ہمیں حکومتی اجازت کا انتظار ہے۔ اسد عمر صاحب نے بتایا کہ ایک دو دن تک حکومت پالیسی کے مطابق ویکسین کی بازاری قیمت کا تعین کردے گی۔ بہت سے لوگ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے کہ انہیں ویکسین کی سخت ضرورت تھی۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے حکومتی ویکسین انہیں مل نہیں سکتی تھی، لیکن ہوا یہ کہ معاملہ معلق ہوگیا۔ حکومت نے جو قیمت مقرر کی وہ کمپنی نے ماننے سے انکار کردیا کہ اس میں اسے نقصان ہے۔ حکومت مصر رہی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ جلد از جلد ویکسین کی قیمت افہام و تفہیم سے مقرر کی جائے۔ اب یہ معاملہ کب حل ہوگا پتہ نہیں، لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے نجی درآمد کنندگان کیلئے جو پالیسی اور شرح منافع مقرر کی تھی، اس میں ابہام اور نقائص موجود ہیں، ورنہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جاتا۔ اس قضیے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دیگر نجی درآمد کنندگان، جو مختلف ویکسینز امپورٹ کرنا چاہتے ہیں، یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے ڈر کر پیچھے ہوجائیں گے اور لوگوں کو کسی بھی قیمت پر ویکسین نہیں مل سکے گی۔ ضروری ہے کہ حکومت درآمد کنندگان کو جائز کاروباری منافع دیتے ہوئے اور یہ خیال رکھتے ہوئے نئی پالیسی بنائے کہ اس سے ناجائز شرح منافع کا دروازہ نہ کھلے اور لوگوں سے اسی بہانے پیسے بٹورنے کا دھندا شروع نہ ہوجائے۔ یہ کام فوری ضروری ہے۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ جو معاملات بہتر پالیسی کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہوں ان پر عدالت سے فیصلہ لیا جائے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ ویکسین لگوانے سے پہلے میں نے دو تین ڈاکٹرز سے مشورہ کیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ روسی ویکسین، چینی ویکسین سے بہتر اور زیادہ مؤثر ہے اس لیے اگر دستیاب ہو تو وہ لگوانی چاہیے۔ چینی ویکسین کی کامیابی کی شرح 79 فیصد معلوم ہوئی تھی جبکہ یہی ویکسین متحدہ عرب امارات کے اعدادوشمار کے مطابق ان کے تجربات میں 86 فیصد پر تھی جبکہ روسی ویکسین سپوتنک کی تاثیر 94 فیصد بتائی جاتی ہے۔ اسی لیے کئی ڈاکٹر دستیابی کی صورت میں سپوتنک کو ترجیح دے رہے ہیں، لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ حکومت کی ویکسین ایک پیسا خرچ کیے بغیر دستیاب ہے جبکہ ہر شخص آٹھ دس ہزار خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے دونوں راستے کھلے رہنے ضروری ہیں۔ یورپی اور امریکی ویکسینز ابھی تک پاکستان میں نہیں آئیں اور اس کی وجہ ان کی قیمت کے علاوہ یہ ہے کہ انہیں جس درجۂ حرارت پر رکھنا لازمی ہے وہ کم وسائل والے ممالک کے بس سے باہر ہے۔ ہمیں تو اسی بات پر چینی حکومت کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے دوستی اور ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں ویکسینز پاکستانیوں کو مفت فراہم کیں۔
اس سارے منظر کو پیش کرنے کے بعد جو اہم بات کرنا چاہتا ہوں اس پر درد دل والوں کی توجہ کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے جو لوگ اب تک حکومت کے پاس ویکسین کے لیے رجسٹر ہوئے ان کی تعداد آٹھ لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔ ان میں سے نصف کے قریب اب تک ویکسین لگوا چکے ہیں۔ باقی کا عمل جاری ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بائیس کروڑ کے ملک میں صرف چند لاکھ یعنی بائیس کروڑ تک پہنچتے پہنچتے اور زلف کے سر ہونے تک طویل مدت گزر جائے گی
یعنی آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
اور یاد رہے کہ انسان کے پاس ایک عمر ہی ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ویکسین کیلئے نوجوان نسل کی باری آتے آتے کتنی ہی جانیں اس وائرس کا شکار ہو جائیں گی۔ یہ کتنی قیمتی جانیں ہیں۔ یہ ان ماؤں، بہنوں، بیویوں، بھائیوں اور باپوں سے پوچھیے جن کے محبوبوں کو یہ خونیں ہاتھ جھپٹ کر لے گیا اور اب ان کے حصے میں مسلسل آہیں اور آنسو ہیں۔ یہ بے حد قیمتی جانیں ہیں انہیں بچا لیجیے۔ پاکستان مخیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی ہوں یا اندرون ملک، درد دل رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہمارے درمیان موجود ہے۔ فلاحی ادارے موجود ہیں۔ پاکستان بھر میں ڈسپنسریوں، ہسپتالوں، ایمبولینسوں، ادویات، خون کی بوتلوں کے نظام میں مخیر حضرات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ سب اپنے گردوپیش میں کووڈ کی برپا قیامتیں روز دیکھتے اور بعض اوقات ان سے گزرتے ہیں۔ کیا وہ ادھر توجہ کریں گے؟ یہ لوگ کتنی ہی جانیں بچانے کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ کیا کچھ لوگ ایسے آگے نہیں آسکتے جو ویکسین خرید کر کم عمر، بے وسائل نسلوں تک پہنچا سکیں؟ پہلے سے موجود ادارے اس خدمت کو بھی اپنے ذمے لے لیں یا نیا ادارہ بنا لیں جس کا مقصد یہ ہوکہ لوگ ویکسین تک نہ پہنچیں، ویکسین ان تک پہنچے۔ پیاسے لوگوں تک پانی پہنچانے والے، بھوکوں کے ہاتھوں میں روٹی پہچانے والے کیا محلول کی ایک چھوٹی شیشی ان تک نہیں پہنچا سکتے؟ کیا میری آواز سننے والے اس کار خیر میں حصہ لیں گے؟ کروڑوں لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ قرآن کریم کا ارشاد یاد کیجیے‘ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت بچا لی۔ کیا آپ انسانیت بچانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا سکتے؟ (ختم)