کیا سانحات شاعری کا رخ بدل سکتے ہیں؟ کیا وبائیں ہمیں نئے الفاظ ادا کرتی ہیں؟ اس نشست کا مقصد ان ہی سوالوں کی کھوج تھی۔
ادب زندگی کی ایک مکمل اکائی ہے، سماج میں آنے والے دیگر بحرانوں کے مانند کورونا بحران نے بھی اس اکائی اور اس سے وابستہ افراد کو متاثر کیا۔
اگر موضوع اردو ادب ہو، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے برعکس بیرون ملک مقیم ادیبوں اور شاعروں نے اس کے اثرات کو زیادہ سنجیدگی سے محسوس کیا کہ انھیں سخت لاک ڈاؤن کا سامنا رہا۔
اسی ضمن میں ہم نے دبئی سی تشریف لانے والی اردو کی معروف شاعرہ، ثروت زہرا سے ایک مختصر گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ ان کے دو مجموعے (جلتی ہوا کا گیت/ وقت کی قید سے) قارئین اور ناقدین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں، جب کہ ہندی اور سندھی (کونج کرلائے تھی) میں تراجم بھی شایع ہو چکے ہیں، انگریزی میں تراجم کی کتاب جلد شایع ہوگی۔
دیکھتے ہیں، اپنے پرفکر اشعار اور توانا آواز سے ہزاروں سامعین کو متاثر کرنے والی اس تخلیق کار کے اس بابت کیا خیالات ہیں۔
اقبال: کیا کورونا بحران اردو ادب پر اثر انداز ہوگا؟
ثروت زہرا:مجھے یقین ہے کہ کورونا ادب اور پھر اردو ادب کو بھی ارتقا دے گا۔ کیوں کہ تبدیلی، مثبت ہو یا منفی ہو، آنے والے وقت کو نئی زرخیزی، نیا رجحان، نئی جہت عطا کرتی ہے۔ غالب نے دلی اُجڑنے کا حال لکھا اور ایک تاریخ رقم ہوگئی۔ مجھے اُمید ہے کہ پوسٹ کورونا دنیا ادیب و دانش ور کو بنیادی انسانی مسائل کے لیے پہلے سے زیادہ تجربہ عطا کرے گی، ادب فردی اور سماجی مسائل پر پہلے سے زیادہ صحت مند گفتگو کی بنیاد رکھے گا، کورونا دور میں اندرون سے گفتگو کرنے اور بے معنی مشینی انبار کم کرنے کا وقت میسر آیا۔ امید ہے، ہم اپنے تعصبات کو مزید بہادری سے شکست دے سکیں گے۔
اقبال: اردو شاعری کے مسقبل میں کیا امکانات ہیں؟
ثروت زہرا: دیکھیے اگر آپ اردو شاعری کی بات کریں گے، تو میں کہوں گی، وہی امکانات جو اردو زبان کے ہیں، کیوں کہ ادب زبان کی کلی ترقی سے ہی ممکن ہے۔ ہاں شاعری کو میں ہر دور سے زیادہ آیندہ دور میں کامیاب اور سرخرو دیکھتی ہوں، کیوں کہ جدید دُنیا کو جتنا انسانی خیال و خواب اور تنہائی کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کی آج ضرورت ہے، پہلے کبھی نہیں رہی، کیوں کہ آج کے مشینی دور نے انسان کو تنہائی کے نئے ذائقے اور بے معنویت سے آشنا کیا ہے، جس پر بات ہونی چاہیے، اور شاعری اس کے باطن پر بات کرے گی، اردو شاعری نے ہمیشہ غالب و میر کی صورت اگلے زمانوں سے کلام کیا ہے، تو اب بھی کرے گی۔
اقبال: کیا زمانے کی تیز رفتاری کتاب کلچر کو نگل لے گی؟
ثروت زہرا: کتاب کی خوشبو اور طلسم ایک جادو سہی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طلسم ہوش رُبا کی داستانوں کی طرح نئی نسل کا مسئلہ نہیں۔ میرا بیٹا پیپرلیس دُنیا میں تعلیم لے رہا ہے، میرا رشتہ اس کاغذ سے دائمی سہی، مگر میں بھی اکثر آن لائن کتابیں پڑھتی رہتی ہوں یا سنتی رہتی ہوں۔ سیاہی اور کاغذ میری ہاتھ کو اب بھی تراوٹ دیتے ہیں۔ اگلی نسل کو میں مزید تعلیم یافتہ دیکھ رہی ہوں، لیکن اس کے علم کے ذرایع صرف کتاب نہیں، بلکہ کمپیوٹر اور اس کے جدید ذرایع ہیں۔