سمیر زیتونی: ایمان، بہادری اور انسانیت کی روشن مثال

انجینئر بخت سید یوسف زئی (بریڈ فورڈ، انگلینڈ)

گزشتہ دنوں برطانیہ کی ایک ٹرین میں دل دہلا دینے والا واقعہ پوری دنیا کے لیے ایک سبق بن گیا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ڈانکاسٹر سے لندن کنگز کراس جانے والی ٹرین میں اچانک ایک شخص نے چاقو نکال کر بے گناہ مسافروں پر حملہ کردیا۔ لوگ چیخنے لگے، بھاگ دوڑ مچ گئی اور خوف و ہراس کا عالم چھا گیا۔ ایسے میں ایک شخص نے وہ کام کیا جو بہت کم لوگ کرپاتے ہیں، اس نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دوسروں کی جان بچانے کے لیے خود کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ شخص تھا 48 سالہ الجزائری نژاد مسلمان ریلوے ملازم، سمیر زیتونی، جو اُس وقت ٹرین میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ جیسے ہی حملہ آور نے پہلا وار کیا، سمیر نے لمحے بھر کے لیے بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ وہ آگے بڑھے، حملہ آور کے سامنے آکر ڈٹ گئے اور مسافروں کو محفوظ مقام کی طرف بھاگنے کا موقع دیا۔
چند لمحوں کے اس فیصلے نے کئی زندگیوں کو بچا لیا۔ سمیر خود بری طرح زخمی ہوگئے، ان کے بازو اور کندھے پر گہرے زخم آئے مگر ان کے عزم میں کمی نہیں آئی۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے ان کی حالت نازک قرار دی، تاہم خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی۔ برطانوی حکام نے سمیر کی بہادری کو سراہا اور کہا کہ اگر انہوں نے مداخلت نہ کی ہوتی تو شاید کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔برطانیہ کی ریل انتظامیہ نے انہیں “حقیقی ہیرو” قرار دیا۔ ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ سمیر ہمیشہ دوسروں کے لیے فکرمند رہنے والے انسان ہیں اور ان کی فطرت میں خدمت اور قربانی شامل ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک بہادری کی کہانی نہیں بلکہ ایک اخلاقی سبق بھی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا میں مسلمانوں کے بارے میں منفی بیانیے عام ہیں، سمیر زیتونی کا کردار ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ ایمان صرف الفاظ کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔


افسوس کہ جہاں عالمی میڈیا کسی مسلمان کے چھوٹے سے منفی عمل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، وہیں ایک مسلمان کے عظیم کارنامے پر اکثر خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔ اس واقعے پر بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔ اگر حملہ آور کا نام سمیر ہوتا تو شاید عالمی میڈیا چیخ رہا ہوتا مگر آج جب ہیرو کا نام سمیر ہے تو بیشتر پلیٹ فارمز خاموش ہیں۔ یہ خاموشی صرف میڈیا کی منافقت نہیں بلکہ اس معاشرتی رویے کی عکاسی بھی ہے جو مذہب اور نام دیکھ کر لوگوں کی قیمت طے کرتا ہے۔ سمیر زیتونی کا کارنامہ اس سوچ کے خلاف ایک خاموش مگر زوردار پیغام ہے۔ ایک عام انسان جب اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کو بچاتا ہے تو وہ معاشرے میں امید کی ایک نئی شمع روشن کرتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانیت کی اصل روح زندہ ہے۔
اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا۔” (سورۃ المائدہ: 32) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کی حرمت سب سے بڑی ہے اور سمیر زیتونی نے اسی تعلیم پر عمل کیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے قرآن کے پیغام کو زندہ کر دکھایا۔ سمیر کی بہادری نے صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان کے لیے دعائیں کیں اور انہیں اسلام کی حقیقی تصویر قرار دیا۔
ان کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان صرف عبادت کا نہیں بلکہ کردار اور قربانی کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ ایسے کردار دنیا میں امن اور بھائی چارے کے سفیر ہوتے ہیں۔ جب اسپتال میں ان کے ہوش آنے پر ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا، تو انہوں نے صرف اتنا کہا، میں خود کو روک نہیں سکا، لوگ میری حفاظت میں تھے، تو میں ان کی حفاظت کے لیے کھڑا ہوا۔ ان کے یہ الفاظ انسانیت کی معراج ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، “سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔” (حدیث کا مفہوم) یہ حدیث سمیر جیسے لوگوں کی زندہ تصویر ہے۔ وہ اس دنیا میں روشنی پھیلارہے ہیں، جہاں نفرت کے اندھیرے بڑھتے جارہے ہیں۔ سمیر زیتونی کا یہ عمل نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے سبق ہے کہ اصل ہیرو وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے قربانی دیتا ہے، چاہے اس کی اپنی جان ہی کیوں نہ خطرے میں پڑجائے۔
یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ ہمیں اپنے کردار سے اسلام کی خوبصورتی دکھانی چاہیے۔ دنیا ہمارے الفاظ سے نہیں بلکہ ہمارے اعمال سے متاثر ہوتی ہے۔
جب ایک مسلمان اپنے دین کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ اسلام کا چلتا پھرتا پیغام بن جاتا ہے۔ سمیر زیتونی نے یہی کیا، انہوں نے قرآن اور سنت کی روح کو اپنے عمل میں سمو دیا۔ آج ان کی بہادری کی کہانی صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک ایمان افروز درس ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی انسانیت اور ایمان کی روشنی بجھنے نہیں دینی چاہیے۔ ایسے لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، کیونکہ وہ دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ اچھائی اب بھی زندہ ہے اور ایمان اب بھی دنیا کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔
سمیر زیتونی نے اپنی بہادری سے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان وہ نہیں جو دوسروں کو نقصان پہنچائے، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کے لیے ڈھال بن جائے۔ ان کی کہانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، ایک ایسے مسلمان کی کہانی جس نے اپنی جان داؤ پر لگاکر دوسروں کی جان بچائی اور ثابت کردیا کہ سچا ہیرو وہ ہے جو انسانیت کے لیے جیتا ہے۔ یہ واقعہ آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیتا رہے گا کہ جب خوف پھیلتا ہے تو ایمان دلوں کو مضبوط بناتا ہے اور جب دنیا خاموش ہوجاتی ہے تو بہادری بولتی ہے۔ یہی ہے اسلام کا اصل چہرہ، یہی ہے ایمان کا جوہر اور یہی ہے سمیر زیتونی کا پیغام، انسانیت کے نام۔

A shining example of faithcourageHumanitySafe PassengersSamir ZeitouniUK Train Attack