اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فرمائی ہے۔ ایمان کی تکمل کے لیے لازم ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے احکامات پر دل و جان سے عمل کریں اور احکامات الٰہی کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسلام نے تعلیمات محض وحی یا انبیا کی بدولت ماننے والوں تک نہیں پہنچائیں، بلکہ انبیا علیہم السلام کی زندگیوں کو ان تعلیمات کا عملی نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی سنت کی یاد میں تمام صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر ذوالحج کے ماہ مبارک میں قربانی فرض کی ہے۔ قربانی اللہ کی بارگاہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے، سرِ تسلیم خم کرنے اور نیازمندی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قربانی دراصل اس واقعے کی یاردگار ہے، جب حضرت سیدنا ابراہم علیہ السلام نے حکمِ الٰہی کے مطابق اپنے عزیز فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دربارِ خداوندی میں قربانی کے لیے پیش کیا اور آنے والی نسلوں کو یہ باور کرایا کہ جب احکام خداوندی پر عمل کرنے کا معاملہ ہو تو اولاد جیسی پیاری شے بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کرنا ہی اصل بندگی کی حقیقت ہے۔
قرآن نے اس عظیم واقعے کی جانب یوں اشارہ کیا ہے کہ جب وہ ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو ہنچا تو ابراہمؑ نے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ گویا میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ پس اے اسماعیل تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابراہم کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی انہی کی طرھ اللہ کی مرضی پر راضی ہونے والے تھےء، لہٰذا والد کے استفسار پر کہنے لگے، ابا جان، آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔
پھر کائنات کے چپے چپے نے دیکھا کہ اگر ایمان مکمل ہو تو باپ اللہ کے حکم پر اپنے فرزند کو قربان کرنے چل پڑتا ہے۔ دونوں باپ بیٹا اللہ کے حکم پر اس زبردست آزمائش اور امتحان کے لیے تیار ہوگئے۔ جب حضرت ابراہم خلیل اللہ اپنے کم سن اور معصوم بیٹے کو قربانی کے لیے لے کر چلے تو شیطان نے تین مرتبہ سیدنا ابراہم کو اس حکمِ الٰہی کی تکمیل سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن ہر مرتبہ آپ علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر راستے سے بھگا دیا۔ بالآخر دونوں جب اس بے مثال فریضے کی ادائیگی کے لیے منیٰ کی قربان گاہ پہنچے تو اسماعیلؑ نے اپنے والد سے عرض کیا، ابا جان، مجھے ذبح کرنے سے پہلے مجھے اچھی طرح باندھ دیجیے، کہیں اللہ کے حکم کی تکمیل میں تاخیر نہ ہوجائے یا آپ مجھے تڑپتا دیکھ کر کمزور نہ پڑ جائیں۔
حضرت ابراہمؑ نے ذبح کی تیاریاں مکمل کیں اور اپنے لختِ جگر کو آخری بوسا دیا اور پیشانی کے بل پر لٹا دیا۔ قرآن نے اس منظر کو بھی بیان کیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کی گردن پر چھری چلانی شروع کی، مگر چھری کی کیا مجال کہ وہ اللہ کے پیاروں کو اس کے حکم کے بغیر کاٹ سکے۔ایک جانب اللہ تعالیٰ نے چھری سے کاٹنے کی صلاحیت چھین لی کہ کہیں میرے پیارے کو تکلیف نہ ہو، دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام پوری استقامت اور طاقت سے چھری چلانے کی کوشش میں جڑے تھے کہ کہیں اللہ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہوجائے۔ اچانک غیبی آواز آئی کہ اے ابراہیمؑ، آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔
یہ پکار سن کر اللہ کے خلیل نے چھری چلانا روک دیا اور نگاہیں آسمان کی جانب بلند کیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل امین ایک دنبہ لیے کھڑے ہیں۔ یہ دنبہ حضرت ابراہیمؑ کو عطا ہوا، جسے انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے بدلے قربان کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور ہم نے ابراہیمؑ کو عظیم ذبیحہ اس کے (یعنی اسماعیلؑ کے) کےعوض دے دیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے ابراہیمؑ کا ذکر باقی چھوڑ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنبہ عطا کرکے یہ ظاہر کر دیا ک ہوہ اپنے امتحان میں پورا اترے ہیں اور چھری کو چلنے سے روک کر اپنے ماننے والوں کو یہ بتادیا کہ میں تم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہوں۔ مشکل وقت اور کڑی گھڑیاں تو بس تمہارا امتحان ہیں۔ میرے احکامات پر عمل کرنے والے میری ذات کو ہمیشہ رحیم پائیں گے۔
آج دنیا بھر کے مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد میں حض ادا کرتے ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں اور کروڑوں لوگوں میں گوشت کی تقسیم کر کے اسلام کے ماننے والوں کی باہمی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
قربانی کا اصل فلسفہ دراصل ہے کیا؟ بیٹے کو قربان کرنے کا امتحان حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے اس لیے لیا گیا کہ آنے والی اقوام کو بتایا جاسکے کہ اللہ کے احکامات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ مسلمان تو وہی ہیں، جو اللہ کی راہ میں اپنا جان و مال، بچے، سب کچھ قربان کرسکیں۔ ایمان تو اسی کا مکمل ہے جو اللہ کے حکم پر اپنے بیوی اور بچوں کو صحرا میں تنہا چھوڑ سکے۔ اسی جذبے کو پروان چڑھانے کے لیے افضل یہ سمجھا جاتا ہے کہ قربانی کے جانور کو عید سے کچھ روز قبل کھر لایا جائے۔ جانور بھی ایسا جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ پھر اس جانور کی خوب خدمت کی جائے، اسے اپنے گھر میں رکھا جائے۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی جان دار اس کے ساتھ رہتا ہے اور انسان اس کی خدمت کرتا ہے تو اس کی شرارتوں اور محبت سے انسان کو اس جان دار سے لگاؤ ہو جاتا ہے اور جس سے لگاؤ ہو جائے اسے قر۵بان کرنا اور اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس محبت کے جذبے کے ساتھ قربانی کے جانور کو اپنے سامنے قربان کرنے کے لیے انسان عہد کرتا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ آج ہم نے اس فلسفے کو چھوڑ کر قربانی کے عظیم فریضے کو نمود اور تشہر کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
کوئی اربانی کے جانور کو چھت پر پالنے کا ڈراما رچاتا ہے اور پھر جانور کو کرین کے ذریعے نیچے اتارنے کی تقریب میں میڈیا اور پورے محلے کو جمع کرکے اس کی تشہری کی جاتی ہے۔ اس عمل میں جانور کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے، یہ بات نمائش کرنے والے انسان نہیں جانتے۔ گزشتہ برسوں میں کئی ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ کرین سے جانور اتارتے ہوئے جانور کئی فٹ کی اونچائی سے گر کر یا بجلی کی تاروں میں پھنس کر کرنٹ لگنے کی وجہ سے مرگیا، اس کے ذمے داروں سے کیا اللہ تعالیٰ خوش ہوگا؟ محلے میں سب سے بڑا جانور لانے کی دوڑ میں لگی قوم نے بیوپاریوں کو بھی ناجائز طریقے سے جانور کی پرورش کرنے پر لگا دیا ہے۔ جانوروں کو مختلف قسم کی حلال یا حرام خوراکیں کھلائی جاتی ہیں، انہیں ادویات سے بھرے ٹیکے لگائ جاتے ہیں، جانوروں کے پیروں میں گھنگھرو باند کر انہیں گلیوں میں بھگانا ان کی دوڑیں لگوانا یہ سب قربانی نہیں ، بلکہ نمائش معلوم ہوتی ہے۔