ہم امجد صابری کے گھر سے چند قدم دور تھے۔امجد صابری۔۔۔ جسے چند برس بعدبے دردی سے قتل کیا جانے والا تھا ، مگر ہماری منزل امجد صابری کا مکان نہیں تھا ۔ ہم اس صبح صابری برادرزکے اٹوٹ انگ، فرید صابری کے چھوٹے بھائی مقبول صابری کے انٹرویو کی غرض سے نکلے تھے۔دن کچھ ایسا گرم نہ تھا، مگر سورج اب دھیرے دھیرے اوپر آرہا تھا۔ حدت بڑھ رہی تھی اور لیاقت آبادکی تنگ ، قدیم گلیاں جاگنے لگی تھیں۔ شاید چار منزلہ عمارت تھی۔ ایک پورشن میں ان کی رہائش تھی۔ بہت دیر تک دروازہ بجانا پڑا۔ اوپری منزل سے اترنے والی ایک ادھیڑ عمرخاتون نے طنزاً کہا ’’بہت دیر تک سوتے ہیں۔‘‘
ہم ہنس دیے،کیا کہتے ۔ رات رات بھر قوالی پیش کرنے والوں سے صبح دس بجنے اٹھنے کی توقع کرنا معصومیت کے مترادف۔ فوٹوگرافر نے جمائی لیتے ہوئے کہا ’’رات ضرور بڑے صاحب کی پر فارمنس ہوگی۔‘‘
تھک کر ہم نے موبائل نمبر ڈائل کیا ۔ اس سے قبل کہ موبائل فون کے اسپیکرسے ہیلوکی آواز سنائی دیتی، ہمیں بند دروازے کے اُدھر ایک ضعیف سا ہیلو سنائی دیا ، وہ آخر جاگ گئے تھے۔ ہمیں کچھ دیر دروازے کے ادھر انتظارکرنے کے لیے کہا گیا۔ ہم اندر ہونے والی کھٹ پٹ سنتے رہے۔ آخر ان کے صاحبزادے نے دروازہ کھولا، جو تب لڑکا سا تھا۔
سامنے، ایک اسٹول پر وہ بیٹھے تھے۔تہبند، اوپر سیاہ کرتا ، سر پر ٹوپی، گلے میں ایک تسبیح پڑی تھی، چہرہ پر نیند تو تھی مگر ایک مسکراہٹ بھی تھی، وہ ایک پرفارمنس کے لیے تیار تھے۔
میں مقبول صابری کے روبرو تھا ۔ بھر دو جھولی، تاجدار حرم، سرلامکان سے طلب ہوئی جیسی لازوال قوالیاں پیش کرنے والے فن کا رکے رو برو۔
اُن سے اس روز جو باتیں ہوئیں، اس کا بڑا حصہ تو ان کے حالات زندگی کے گرد گھومتا تھا،کلیانہ کی یادیں، ہجرت، کسمپرسی کا زمانہ، دونوں بھائیوں کا اینٹیں ڈھونا ،کلن خان کی پارٹی کے ساتھ پرفارم کرنا اور پھر وہ لمحہ، جب قدرت نے ان کا ہاتھ تھاما اور پھر وہ منظر، جب وہ پرفارم کرتے، تو مسلسل نوٹ برستے رہتے۔ بیچ بیچ میں فرید صابری ’’اللہ‘‘ کی صدا بلند کرتے جاتے۔
البتہ اس صبح ہم نے وہ چٹ پٹے سوالات کرنا بھی ضروری جانا، جن کے پرلطف جوابات انٹرویومیں چاند تارے ٹانک دیں۔ اوروں کے برعکس ہمارے روبرو مقبول صابری تھے، یعنی ایک عہد تھا۔ وہ ہم سے بہتر جانتے تھے کہ انٹرویو میں چاند تارے کیسے ٹانکے جاتے ہیں۔ توہم پوچھا کیے: ’’تقسیم سے قبل آپ کی پیدائش ہوئی، سن کیا رہا ہوگا؟‘‘وہ مسکرائے تھے۔ پھر نفی میں سر ہلایا۔ بولے،’’سن تو یاد نہیں۔‘‘
’’اچھا عمرکیا ہوگی؟‘‘ہم نے اگلا سوال داغا۔
وہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جو اس حقیر فقیر پر بیتا۔ وہ مزید مسکرائے۔ انگریزی میں کہا:’’43!‘‘
ہمیں لگا، جیسے ہمارے کان بج رہے ہوں۔ اُن کا کہا ہندسہ، ہکلاتے ہوئے سوالیہ انداز میں دہرایا، تو ان کے چہرے پر شرارت ابھر آئی۔ کہنے لگے۔ ’’شاید33 ہو۔‘‘
حیرت اگر کوئی صدمہ لاتی ہے، تو اس سمے ہم اسی صدمے کے زیر اثر تھے۔ انٹرویو کے اختتام پر، جب وہ کمرے سے اٹھ چل دیے، تب ہم نے ان کے بیٹے سے پوچھا ’’آپ کے والد کی صحیح عمر کیا ہے؟‘‘
بیٹے نے اپنے باپ کے مانند ہمارے لیے ایک اور تاریخی لمحے کو جنم دیا، کہا ’’یہی کوئی پینتالیس پچاس سال ہو گی۔‘‘انٹرویو نگار، یعنی ہم نے جھنجھلا کرکہا:’’بھائی، وہ تقسیم سے پہلے بھی کلیانہ میں پرفارم کیا کرتے تھے اور پاکستان کو بنے 65 سے زیادہ برس ہوچکے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ ہمارے حساب کتاب سے متاثر نہیں ہوا۔ ’’کچھ پتا نہیں۔‘‘
شاید آپ سوچتے ہوں کہ آج مقبول صابری مجھے کیوں یاد آگئے؟ اس کی ایک سادہ سی وجہ تو یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ آج یعنی 21 ستمبر کو ان کی برسی ہے۔ 2011 میں وہ ہم سے جدا ہوئے تھے اور اس وقت ان کی عمر لگ بھگ، 33 یا 43 نہیں، بلکہ 66 برس تھی۔
البتہ سچ یہ ہے کہ انھیں اس سبب یاد نہیں کیا کہ ان کی برسی قریب ہے، بلکہ فقط اس سبب کہ ایک جب اپنی زندگی سے جڑے کچھ دلچسپ واقعات یاد کرنے بیٹھا، تو یکدم مقبول صابری اپنی شریر مسکراہٹ لیے میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور مجھے وہ صبح یاد آگئی، جب میں نے ان سے پوچھا تھا: ’’عزیز میاں کے منفرد انداز گائیکی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں!‘‘
اور انھوں نے کہا تھا: ’’کوئی منفرد نہیں تھا انداز ان کا۔ فلاں فلاں خان بھی ایسے ہی گایا کرتے تھے۔‘‘ کچھ ایسا ہی ردعمل نصرت فتح علی خان اور عابدہ پروین سے متعلق بھی تھا۔
البتہ جب ہم پوچھا کیے:’’بڑے بھائی، غلام فرید صابری سے آپکے اختلافات کیا حقیقت تھے؟‘‘ تو انھوں نے توقف کیا، گہرا سانس لیا اور حاجی صاحب کو ولی قرار دیا۔
کیسے کیسے لوگ تھے، اٹھ گئے، چلے گئے۔ ایک عزیز، جو کلاسیکی موسیقی کے رموز و اوقاف سے خوب واقف اور قوال برادری کی تاریخ پرگہری نظر رکھتے ہیں،کہتے ہیں، ذرا دیکھو تو،کیسے مقبول برادرز روز ایک نئی دھن بناتے تھے، روز ایک نیا آئٹم، جب کہ دیگر قوال وہی گا بجا رہے ہیں، جو ان کے باپ نے بجایا اور اس سے پہلے ان کے دادا نے۔
وہ شخص، جس پر کبھی نوٹوں کی بارش ہوا کرتی تھی، عقیدت مند جس کے ہاتھ چوما کرتے تھے، جس سے لوگ دعائیں کرواتے، دھیمے قدموں سے، کھانستے ہوئے جا چکا تھا اور اس کا بیٹا ہمیں بتاتا تھا کہ وہ اب پاپ میوزک سیکھ رہا ہے اور مستقبل میں فیوژن کا ارادہ رکھتا ہے۔وہ فن قوالی کی بابت زیادہ پرامید نہیں تھا۔
ہم سیڑھیاں اتر کر عمارت سے باہر آگئے۔امجد صابری کا گھر کچھ دور تھا ، مگر ہم ادھر نہیں گئے کہ اس وقت ہم اس اچھوتے ابتدائیہ کی کھوجتے میں تھے، جس سے ہم مقبول صابری کی کہانی کا آغازکرسکیں۔
کہتے ہیں، عظیم گبرئیل گارسیا مارکیز اپنے ناول کے ا بتدائیہ پر خصوصی توجہ دیتا تھا۔ خاصا وقت صرف کرتا، کبھی کبھی تو پورا ایک باب لکھنے سے زیادہ، مگر وہ مارکیز تھا۔ ہمارے عہد کا سب سے بڑا فکشن نگار۔ اور پھر۔۔۔ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا، ڈیڈ لائن قریب تھی۔
شاید آپ سوچتے ہوں کہ آج مقبول صابری مجھے کیوں یاد آگئے؟ ایک وجہ تویہ ہے کہ 21 ستمبر کو ان کی برسی ہے۔۔ ۔البتہ سچ یہ ہے کہ ایک رات جب اپنی زندگی سے جڑے یادگار واقعات گننے بیٹھا، تو وہ سامنے آن کھڑے ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بہ شکریہ، روزنامہ ایکسپریس)