کیا یہ لوگ انسانوں میں شمار نہیں ہوتے؟

انسان اشرف مخلوقات ہے ۔ درخت انچے پہاڑ دریاں نہریں اور ندیاں اللہ تعالی نے صرف انسان کیلے تخلیق کیے ہیں۔ رات کو چاند چمکتا ہے سورج زمین کو حرارت دیتی ہے، اللہ مشرقے سے سورج کو طلوع کرتا اور پھر مغرب میں غروب کر دیتا ہے۔

اللہ تعالی یہ سب اپنے بندوں کیلے کرتا ہے۔ کائنات کی ساری خوبصورتی سارا تماشا جو کچھ بھی ہے، سب انسان کیلے ہے تاکہ انسان ارام اور سکون حاصل کرسکے اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کرے۔ لیکن انسان نا شکرا ہے، انکھیں ہونے کے باوجود نہیں دیکھتا، سنتا ہے پر کان نہیں دھرتا۔ ہمارا ایک سانس بند ہوجائے تو قصہ تمام سمجھیں۔ ان ساری باتوں کے باوجود انسان حقیقت کو نہیں مانتا، اللہ کو یاد نہیں کرتا، اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہے۔ انسان کی حثیت کیا ہے، یہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے۔

کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ سامنے آیا۔ ایک خواجہ سرا نے بات کی تو میں حیران رہ گیا۔ جس طرح اس نے اپنی فریاد پیش کی، یقینناً اس کے سارے مطالبات درست تھے۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں ایک مرد یا ایک عورت کو جینے کا حق حاصل ہے تو اسی طرح ایک خواجہ سرا کو جینے کا حق حاصل کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال ریاست اور حکومت وقت سے پہلے ہمیں اپنے اپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس بارے میں ہمارا کیا خیال ہے؟

اللہ تعالی کے طرف سے آئی ہوئی وباء کورونا وائرس ایک جان لیوا وائرس ہیں جب کیسی کو لگ جائیے تو 14 دن تک آئسولیشن میں رہنا ہوگا۔ یہ 14 دن کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں، مشکل سے یہ 14 دن انسان علیحدگی میں گزارتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ خواجہ سرا اپنی ساری زندگی آسولیشن میں گزارتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان سے پوچھا کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ان لوگوں کے ناچنے گانے پر ہزار ہمارا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن ان سے جینے کا حق ہم کھبی بھی نہیں چھین سکتے۔

جس طرح ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی عزت او احترام ہے اسی طرح خواجہ سراؤں کا بھی ہونا چاہیے۔ یہ لوگ بھی اللہ تعالی کی تخلیق ہیں۔ ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم اللہ کی مخلوق کا مذاق اڑائیں۔ اس خواجہ سرا نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ "اچھا ہوا کہ کورونا آیا تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ آئسولیشن کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔ جب سے کورونا آیا ہے تو حکومت ٹی وی پر کہتی ہے کہ آئسولیٹ ہوجائیں.. ہم تو پہلے ہی اسولیشن میں ہیں۔ ہمارا کون سا گھر ہے، ہم کب اپنے بہن بھایئوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہمارے کون سے دوست رشتہ دار ہیں۔ ہمارے ساتھ تو کوئی دوستی کرنے کیلے تیار نہیں۔ نہ ہمارے پاس تعلیم ہے، نہ نوکری، نہ رشتہ دار ہیں نہ دوست، نہ بہن بھائی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے ماں باپ بھی معاشرے کے ڈر سے ہمارے ساتھ تعلق نہیں رکھتے۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ کیا ہمیں جینے کا کوئی حق نہیں؟ ہم پر لوگ تشدد کرتے ہیں، پولیس ہمارا مقدمہ درج نہیں کرتی۔ کیا یہ ملک ہمارا نہیں ہے؟ اس کورونا کی وجہ سے دکانیں اور بازار بند ہیں، ہم دو وقت کی روٹی کہاں سے کمائیں؟” خواجہ سرا کا مزید کہنا تھا کہ اس معاشرے میں نہ عدل وانصاف ہے نہ انسانیت، نہ ہی کوئی شعور۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی خواجہ سرا بھوکا ہے جب کہ ہم اور ہمارے بچے پیٹ بھر کر سوئیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے اس کے بارے میں ضرور پوچھے گا کہ کیا یہ میری مخلوق نہیں تھی؟ لہٰذا اپنے آس پاس نظر دوڑائیں کہ کہیں کوئی بھو کا نہ سوئے۔

discrimination of cross gendersEunuchs and our societyrights of cross genders