ہمارے وزیراعظم ہر تقریر میں ریاست مدینہ کے بات کرتے ہیں، ہماری بھی یہ دعا ہےکہ اللہ خان صاحب کو اپنے مشن میں کامیاب کریں سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا بہت لازمی ہیں کہ ریاست مدینہ کس بنیاد پر بنایا گیاتھا اور بحثیت قوم ہمیں بھی اس ملک کے خاطرخان صاحب کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہمارے آنے والے نسلوں کیلئے اسانیاں پیدا ہوجائیے ریاست مدینہ کے چار بنیادی اصول تھے۔ اس پر ہم بات کرینگے لیکن میں اپ سے ریاست مدینہ کا ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتاہوں ایک دفعہ ایک بدو اپنے حاملہ بیمار بیوی کے ساتھ ریاست مدینہ کے طرف راوانہ ہوئے صرف اس غرض سے کہ ہم عمررضی للہ تعالی عنہ سے ملے بدو اور ان کو بیوی نے بہت سفر کیا اخر کار وہ دونوں ریاست مدینہ میں داخل ہوئے رات کا وقت تھا بدوکے بیوی پردرد شروع ہوا تو بدو نے خیمہ لگایا اورروشنی کا بندوبست کیا تو اس وقت عمر اپنے ایک معاون کے ساتھ گشت کر رہا تھا جب عمر نے روشنی دیکھی تو اپنے معاون سے کہا جاو دیکھو کہ یہ کون ہیں۔
معاون چلاگیا اور بدوسےپوچھا اپ کون ہے کہا سے ائے ہو بدو نے کہا میں اپ کو کیوں بتاوں کہ میں کون ہو معاون واپس ایا اور عمرسے کہنے لگا حضور وہ نہیں بتاتے کہ وہ کون ہے تو عمر خود ان کے پاس چلاگیا اور پوچا اپ کون ہے کہا سے ائے ہو اور ہم اپ کے کیسے مدد کرسکتےہے تو بدو نے پھر انکار کیا اسی دوران بدو کے بیوی نے اندر سے اواز دی پھر بدو نے عمر کو بتا دیا کہ ہم عمر سے ملنے کے غرض سے یہاں ائے ہیں لیکن میرے بیوی حاملہ تھی اب بیمار ہے تو عمر فورا گھر تشریف لے گئے اور اپنے بیگم سے مخاطب ہوا کیا تم نیکی کمانا چاہتی ہوں تو بیوی نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں تو اس وقت عمر نے اپنے بیوی کو اپنے ساتھ لیکر خیمے میں چلاگیا۔
اس وقت تک بدو کو پتہ نہیں تھا کہ یہ عمر ہےاور بدو باقاعدہ حکم دے رہا تھا کہ یہ کام ایسا کرو یہ ایسے کرو اور عمر حکم مانتا رہا بدو نے سنا تھا کہ ریاست مدینہ میں لوگ ایسے خدمت کرتے ہیں عمرکے بیوی نے اندر سے اواز دی اے امیرالمومنین بیٹا پیدا ہوا ہے تو بدو کو پتہ چلا کہ یہ تو عمر ہے پھر بدو نے شرمندگی کا اظہار کیا اور کہنے لگا مجھے پتہ نہیں تھا مجھے معاف کردیں عمر نے کہا نہیں یہ ریاست مدینہ ہے یہاں سب برابر ہیں کوئی امیر غریب نہیں ہیں۔ عمر نے کہا میں بھی اپ جیسا ہوں میرا کام ہے لوگوں کی خدمت کرنا تو یہ ہے ریاست مدینہ کیا۔ ہمارے حکمرانوں میں ایسا جزبہ ایسی طاقت ہے کہ ایسے کام کرے یہ ہم سب کو معلوم ہیں کہ ہمارے حکمران کتنے پانی میں ہیں، جو بندہ ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے تو اس کے ایک وزیر نے اپنے تقریر میں کہا میں صرف ان لوگوں کا کام کرونگا۔
جس نے ہمیں ووٹ دیا ہو باقی کا میں زمہ دار نہیں ہوں، خان صاحب اگر اپ کے وزیر ایسے ہیں تو آپ کیسے ریاست مدینہ کی بات کرسکتے ہیں، اب میں ان چار اصولوں کے طرف اونگا جس کہ بنیاد پر ریاست مدینہ بنایاگیاتھا، سب سے پہلے عدل و انصاف، کیا اس ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے جو لوگوں کو مل جائے ہمارے سامنے ایسے بہت لوگ موجود ہیں۔ جو اج تک انصاف کے چکر میں ہیں لیکن اج تک ان کو انصاف نہیں ملا سانحہ ساہیوال کو دیکھا جائے۔ دن دھاڑے بچوں کے سامنے ان کے والد پر گولیوں کی بارش کردی گئی کیا یہ قیامت سے کم تھا۔ ان کیلے کیا اج تک ان کو انصاف مل گیا ؟ بلوچستان میں مجید اچکزیئ نے اپنے گاڑی پر پولیس کانسٹیبل کو مارا اورکچھ عرصہ بعد عدالت نے مجید اچکزئی کو با عزت بری کردیا کیا یہ انصاف ہے؟ ریا ست مدینہ میں دوسرے بات یہ ہے نسلی فرقہ واریت کو بالائے طاق رکھ کر سب لوگوں کو ایک نظرسے دیکھاجایئگا، سب لوگوں کو ایک جیسا حق ملے گا ، تیسری بات ریاست مدینہ میں یہ تھی معاشی آزادی کیا۔ ہم نئے پاکستان میں آزادانہ طورپر کام کرسکتے ہیں کیا ہمارے جان و مال محفوظ ہے؟ دن دھارے لوگ ڈکیتی کرتےہیں، کیا کسی کو سزا دی گئ ہے؟
یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ دیں ،اخری بات ریاست مدینہ کی یہ ہے قومی سلامتی کہ جب کوئی مہمان باہر کے ملک سے اجایئے تو اس کا خیال رکھا جایئے گا اور یہاں پاکستان میں باہر سے تو کیا اپنے شہریوں کو تحفظ نہیں دیں سکتی کچھ دن پہلے لاہورموٹروے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ بجائے یہ کہ ملزمان پکڑے جائے ہمارے سی سی پی او صاحب کہتے ہیں کہ خاتون کو جی ٹی روڈ پرنہیں جاناچاہیےتھا۔ یہ موٹر وے پر کیوں چلی گئے تو یہ ہے ہمارا نیا پاکستان اس سال تقریبا 200 سے زیادہ زیادتی کے کیس رپورٹ ہویئے ہیں جس میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے ریاست مدینہ میں سب کو تحفظ دیا جاتاتھا کیا یہاں لوگوں کو تحفظ ملتا ہیں ؟ اللہ ہم سب پر اپنا رحم کرے امین ۔