علما کی عظمت

حافظ احمد

آج کچھ واقعات پڑھ رہا تھا تو ان واقعات میں بادشاہوں اور علما کے مابین ہونے والے کچھ مکالمے بھی نظر سے گزرے۔

ہر مکالمے میں اس طرح کے جملے نظر آئے:
"بادشاہ نے فلاں عالم سے کہا تو انہوں نے فرمایا، بادشاہ نے سوال کیا تو فلاں امام نے جواب دیتے ہوئے فرمایا” وغیرہ وغیرہ۔

ایسے جملوں کو پڑھ کر ایک بات ذہن میں آئی کہ جب تک یہ بادشاہ اور علما بقید حیات ہوں گے تو ممکن ہے کہ بادشاہ کی بات کو "فرمانے” اور عالم دین کی بات کو "کہنے” سے تعبیر کیا جاتا ہو اور اس وقت ظاہری مرتبہ و مقام کے لحاظ سے یقینا بادشاہوں کو فوقیت بھی دی جاتی ہوگی لیکن ان کی باتوں کی وہ عزت و عظمت والی تعبیر اور ان کی شان و شوکت صرف ان کی زندگی تک محدود رہی جوں ہی وہ بادشاہ دنیا سے گئے کچھ نہ رہے۔

جبکہ علما کی شان و عظمت تب بھی تھی اور علم کی وجہ سے آج بھی ان کی شان و عظمت باقی ہے بلکہ پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے اور بادشاہوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے آج ہم کسی بادشاہ کا نام ادب سے لیں یا نہ لیں البتہ علما کا نام لیتے ہوئے آج بھی ہماری گردنیں جھک جاتی ہے اور دل ان کی عظمت کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔
اگلی نسلوں کا بادشاہوں کی خدمات سے مستفید ہونا ممکنات میں سے ہے لیکن علما نے علم کے جو موتی بکھیرے ہیں ان کو چننے سے کسی کو فرار حاصل نہیں۔ علم کے جو دریا ان کے قلم سے جاری ہوئے ایک زمانہ اپنی علمی پیاس ان سے بجھاتا رہے گا اور دوسروں جو سیراب کرتا رہے گا۔