زندگی میں اکثر ہمارا سامنا کئی ایسے لوگوں سے ہوجاتا ہے جو اپنی کسی ادا، انداز گفتگو یا اپنی کسی بھی خوبی کی وجہ سے ہمیں متاثر کر جاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک باہمت، باصلاحیت اور دلچسپ شخصیت سے میری ملاقات ہوئی۔ بعد نماز مغرب کھانا کھانے کے لئے "خان بابا” ہوٹل پر پہنچا جو کہ کراچی( ملیر) ماڈل کالونی میں واقع ہے۔ آپ شاید حیران ہونگے میری بات سن کر کے مجھے متاثر کرنے والی شخصیت کی عمر 12 سے 14 ہے۔ جس کا نام راجن ہے اور وه اسی علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ وه مجھے اسی ہوٹل پر ملا اور نام معلوم کرنے کے بعد مزید گفتگو کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ وه دن میں 500 سے 600 روٹی پکاتا ہے اور ابھی اسی ہوٹل پر ہی ہے۔
اس کے والد اور فیملی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرا ایک بڑا بھائی ہے جو سامنے کریانے کی دکان پر کام کرتا ہے اور مجھ سے 3 سال بڑا ہے، باقی مجھ سے چھوٹے 4 بھائی اور ایک بہن ہے۔ مزید کہنے لگا والد یہیں پر رکشہ چلاتے ہیں۔ میں نے پوچھا پڑھتے کیوں نہیں ہو؟ بولا حالات اجازت نہیں دیتے۔ جو مجھ سے چھوٹے 4 بھائی اور ایک بہن ہے ہم ان کو پڑھا رہے ہیں کہ وہ اچھے اور بڑے افسر بنیں، کہنے لگا کہ چونکہ میں نہیں پڑھ رہا ہوں اسی لئے میں چاہتا ہوں میرے چھوٹے بھائی بہن پڑھیں۔
آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اس نے پہلی ہی ملاقات میں مجھے یہ سب کیوں بتا دیا؟ بات یہ ہے کہ میں نے اسے سندھی میں بات کرتے ہوئے سنا، چونکہ میں بھی سندھی ہوں اس لئے اس سے سندھی میں گفتگو کی۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ اپنی مادری زبان میں انسان زیادہ بہتر طریقے سے بات چیت کرتا ہے۔ اس لئے وه میرے ساتھ بے تکلفی سے باتیں کرتا رہا ۔
اس سے بات کرنے کے بعد میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا کہ جیسے ایک چراغ خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے لیکن اس کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے۔ اس بچے کی سوچ کافی مثبت تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ سب سے اہم بات اسے دیکھ کر مجھے بلکل بھی محسوس نہیں ہوا کہ وه اپنے حالات سے ناخوش ہے بلکہ وه اچھے وقت اور اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لئے جی توڑ محنت کرتا ہے۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ وہ تعلیم کے زیور سے محروم ہے لیکن اس سے بڑھ کر خوشی اس بات کی ہے کہ خود نہ پڑھ کر وہ اپنے چھوٹوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔
یقناَ ایسے ہی لوگ ملک و قوم کے لئے سرمایا ہوتے ہیں۔ جی ہاں جس ملک میں جتنے لوگ کام کرتے ہیں، وه ملک اتنا ہی ترقی کرتا جاتا ہے۔ ملکی آبادی چاہے کم کیوں نہ ہو لیکن محنت کش اور ملک سے وفادار ہو۔ زندگی وه نہیں جو صرف خود کے لئے جی جائے بلکہ زندگی تو وہ ہے جو دوسروں کے لئے جی جائے۔ میں نے یہ آرٹیکل صرف اس محنت کش، بےباق، باشعور اور با صلاحیت بچے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے لکھا ہے۔ رب کائنات سے دعا ہے کہ اس بچے کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے اور اس کی ہمت میں مزید اضافہ فرمائے۔