نگاہ بلند سخن دل نواز جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
(علامہ محمّد اقبال رح)
حاکم وقت کو اپنی رعیت کی نظر میں کیسا ہونا چاہیے؟ اس کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں؟ حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے بعد اگر اس حوالے سے کوئی مثال دی جاسکتی ہے تو وہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کی ذوات مقدسہ ہے، جن میں سے بھی اگر طرزِ حکمرانی کی بات کی جائے تو سیدنا عمر ؓ کی شخصیت اور ان کا طرزِ حکمرانی دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج تک حضرت عمر ؓ جیسے حکمران کی مثال دنیا اس کے بعد نہیں دے سکی، جنہوں نے 22 لاکھ مربع میل پر حکومت کرکے بھی سادگی سے زندگی گزاری، راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے، جن کا عدل ایسا کہ عدل ان کی نسبت پر فخر کرتا ہے، ایسا حکمران جس نے حق اور باطل میں ایسا فرق کیا کہ ان کے نام کے ساتھ فاروق جُڑگیا۔
آج پاکستان کو بھی فاروق اعظم کے نقش قدم پر چلنے والے حکمراں کی ضرورت ہے جو حق سے باطل کو جدا کردے، جس طرح کے معاشی بحران اور مشکلات پاکستان کو درپیش ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے ایک طاقتور حکومت کی ضرورت ہے۔ ایسی حکومت جو بڑے فیصلے کرسکے۔ ہمارے ملک میں جو مہنگائی ہے یہ حکومت کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ ہمارے حکمران ملک کے مسئلے سلجھانے کے بجائے مزید الجھاتے ہیں کیوں کہ نہ ان کے دل و نگاہ پاک ہے نہ ان کے کردار میں صداقت کی مہک ہے۔
شیخ سعدی اپنی کتاب میں ایک حکایت کو لکھنے کے بعد ایک قطعہ لکھتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:
اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب کھاتا ہے تو اس کے نوکر درخت ہی جڑ سے اکھاڑ ڈالیں گے، اگر بادشاہ پانچ انڈوں کی خاطر ظلم روا سمجھے گا تو اس کے سپاہی ہزاروں مرغ سیخ پر چڑھا دیں گے۔
اس حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی چھوٹے ظُلم کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کو حجت بنا کر رعايا ظلم کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا سربراہ کا ہر فعل اُس کے زیرِاثر افراد کو ضرور متاثر کرتا ہے، جس کی مثال ہمارے معمولاتِ زندگی میں بھی ملتی ہے کہ جس طرح ہمارے حکمرانوں نے رشوت جیسی لعنت کی بنیاد ڈالی۔
حضرت امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جب حاکم نے رشوت لی وہ اسی وقت معزول مقصود ہوگا اور اس کے بعد جو بھی فیصلہ کرے گا، وہ باطل ہوگا۔ جس طرح ہمارے حکمرانوں نے بدعنوانی کی بنیاد ڈالی، جسے انگریزی زبان میں کرپشن بولا جاتا ہے۔ حکومت کے سربراہوں سے لے کر معمولی درجے کے ملازم بھی اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ سیاسی اداروں کی مثال لے لیں تو انتخابات کے موقع پر ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک معمولی سبزی بیچنے والا بھی اپنے کام میں کرپشن کرتا ہے، یا تو وہ آپ کو چیز خراب دے گا یا ناپ تول میں کمی کرے گا۔ لیکن یہاں ہم ہر چیز کا قصوروار حکومت کو نہیں ٹھہراسکتے، کیونکہ ایک حدیث میں حضرت محمد ﷺ ارشاد فرماتے ہیں (مفہوم حدیث) جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے۔ کیونکہ عوام اور حکمران دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہوتا ہے۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے جائز خواب، جائز طریقے سے پورے کریں، اس سے پہلے کہ تڑپ کر وہ ناجائز راستہ اپنائیں۔ اگر ہماری حکومت عوام کو خلوصِ دل سے اور اللہ کو خوش کرنے کی خاطر اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ دے سکتی تو آج ہم خانہ جنگی کا شکار نہ ہوتے۔