قطر میں منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں 28 خاتون امیدواروں نے حصہ لیا، تاہم ایک بھی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
خلیجی ملک قطر کی تاریخ میں پہلی بار مجلس شوریٰ کے 30 ارکان کے انتخاب کے لیے ملک گیر الیکشن ہوئے جس میں ایک بھی خاتون امیدوار کامیاب نہ ہوسکیں۔
امیرِ قطر تمیم بن حمد آل ثانی کے حکم پر ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 63 فیصد رہی۔ ووٹنگ کے لیے مرد اور خواتین کے الگ الگ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔
خواتین کی بھی کثیر تعداد نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ ملک میں سیاسی جماعتیں نہ ہونے کے باعث 233 امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا۔ ووٹ ڈالنے کا ٹرن آؤٹ 44 فیصد رہا۔
مجلس شوریٰ کے 30 ارکان کا انتخاب تو الیکشن کے ذریعے ہو گیا تاہم اب 15 ارکان کا انتخاب امیرِ قطر اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے خود کریں گے۔ ممکن ہے وہ کسی خاتون رکن کا انتخاب کر لیں۔
یاد رہے کہ خطہ خلیج کے بیشتر ملکوں میں شہنشایت کا نظام رائج ہے۔ قطر کے اس انتخاب کو ایک علامتی جمہوری قدم سمجھا جا رہا ہے۔ کیونکہ منتخب شوری کونسل کے پاس محدود اختیارات ہوں گے۔ ماضی میں شوریٰ کونسل کی تقرری امیر قطر خود کرتے تھے اور اس کے اختیارات صرف مشاورت تک محدود تھے۔
شوریٰ کو قوانین کی تجویز پیش کرنے، بجٹ منظور کرنے اور وزیروں کو واپس بلانے کی اجازت ہوگی۔ لیکن دنیا کے قدرتی گیس ایکسپورٹ کرنے والے سب سے بڑے ملک، قطر، کے امیر کو کسی بھی فیصلے پر ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
یاد رہے کہ قطر نے سن 2007 میں شوریٰ کونسل کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم ووٹنگ ملتوی ہوتی رہی۔ اور دو اکتوبر2021 کو آخر کار عوام نے حق رائے دہی کا استعمال کیا